عمران کا شو اور بلوچستان آپریشن؟

403

اس وقت ملک میں دو اشوز یا دو خبریں عوامی بحث و مباحثہ کا موضوع بنی ہوئی ہیں، ان دونوں میں کئی نکات قدر مشترک ہیں۔ عمران خان کی طرف سے لاکھوں لوگوں کو میدان میں لانے کی اپیل یا حکومت کو دھمکیاں کئی بار دی جاچکی ہیں لیکن اب تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ اسی طرح بلوچستان اور کے پی میں پہلے بھی کئی آپریشن ہوچکے ہیں لیکن حکومت کو ماضی کے آپریشنوں میں کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں مل سکی دوسری قدر مشترک یہ کہ فوجی آپریشنوں کی ناکامی سے ملک میں دہشت گردی کم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھتی جارہی ہے اور ایسا لگتا ہے حکومت خود بند گلی میں محصور ہوتی جارہی ہے اسی طرح عمران خان کی طرف سے سابقہ جتنے بھی ٹاسک دیے گئے وہ ناکامی کا شکار ہوئے اور خود پی ٹی آئی اپنے آپ کو بند گلی کی طرف لے جارہی ہے۔ ان دونوں اشوز میں تیسری قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں میں سخت گیر اور بے لچک رویہ اپنایا جارہا ہے۔ بلوچستان اور کے پی میں دہشت گردی کے حوالے سے حکومت نے یہ سخت رویہ اختیار کیا ہے کہ دہشت گردوں سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے جبکہ دنیا بھر میں لڑائی اور مذاکرات ساتھ ساتھ چلتے ہیں اسی طرح عمران خان نے اپنے مطالبات کے حوالے سے سخت رویہ اپنایا ہوا ہے کہ سیاسی جماعتوں سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے بلکہ ان طاقتور عناصر سے بات ہوگی جو کچھ ماننے کی پاور رکھتے ہیں۔ ان دونوں معاملات میں چوتھی قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں نے اپنے مطالبات کے حوالے سے باہر کے ملکوں سے امیدیں وابستہ کرلی ہیں پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ امریکی کانگریس میں قرارداووں اور بائیڈن یا ٹرمپ کے ذریعے حکومت پر پی ٹی آئی کے مطالبات منوانے کے لیے دبائو ڈلوایا جائے اس حوالے سے حکومت نے پہلے سے زیادہ سخت موقف اپنا لیا ہے اسی طرح ملک میں دہشت گردی کے حوالے سے حکومت پاکستان کا چین سے رابطہ کرنا کہ وہ افغان حکومت پر دبائو ڈالے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کو لگام ڈالے اور وہ ان کے خلاف کارروائی کریں کہ وہ پاکستان میں بے گناہوں کا خون نہ بہائیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ جب امریکی حکومت کا کوئی دبائو قبول نہیں کریں گے تو کیا افغانستان کی حکومت آپ کی شکایت پر چین کا دبائو قبول کرلے گی۔

ایسا لگتا ہے کہ عمران خان فرسٹریشن کا شکار ہیں اور اس کی وجہ سے ان کے لوگ بھی ذہنی دبائو کا شکار ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس وقت ملک کے پاپولر لیڈر ہیں ہمیں یہ بات سمجھنا چاہیے کہ بیلٹ باکس میں ہر طرح کے سخت حالات کے باوجود جا کر ووٹ ڈال دینا ایک الگ بات ہے اور کسی رہنما کے لیے سڑکوں پر جاکر پولیس کے ڈنڈے کھانا یہ دوسرا مسئلہ ہے ویسے تو 9 مئی میں کئی کارکنان نکل کر آئے انہوں نے ماریں بھی کھائیں بہت سے گرفتار بھی ہوئے ان میں سے کچھ رہا بھی ہوگئے لیکن ایک بڑی تعداد اب بھی جیل میں ہے۔ پی ٹی آئی کی کئی خواتین رہنما طویل عرصے سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں عمران خان نے اپنی پارٹی میں جتنے لائرز کو مرکزی عہدے دیے ہیں وہ سب عمران خان کا کیس لڑرہے ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پی ٹی آئی کا ایک مضبوط لیگل سیل ہوتا جو پورے ملک میں تحریک انصاف کے جیل میں قید کارکنوں اور رہنمائوں کے مقدمات لڑتے۔ کوئی کارکن بیمار ہوجائے یا مرجائے آپ اس کی عیادت اور تعزیت کے لیے تو جاتے نہیں ہیں پھر آپ کارکنوں سے یہ توقع رکھ رہے ہیں کہ وہ آپ کی رہائی کی خاطر سینے پر گولی کھانے کے لیے میدان میں آجائے۔ ان کے بہت قریبی ایک ساتھی نعیم الحق تھے یہ ان کے انتقال پر ان کے جنازے تک میں تو گئے نہیں۔ ہمارے محلے میں کئی برس پہلے کی بات ہے ایک پی پی پی کا کارکن شدید بیمار تھا محلے والوں نے بتایا کہ بے نظیر اس کی عیادت کے لیے اس طرح آئیں کہ اپنی گاڑی سے اتر کر وہ اس کے گھر (جھونپڑی) تک پیدل گئیں راستے میں کیچڑ پانی تھا وہ دونوں ہاتھوں سے اپنی شلوار کے پائینچے اٹھائے ہوئے تھیں، اس طرح کارکنوں کی دل بستگی کی جاتی ہے۔ بھٹو بھی پاپولر لیڈر تھے ان کو جب پھانسی دی گئی تو پورے ملک سے کوئی احتجاج کی لہر نہیں اٹھی کچھ دن بعد پنجاب میں ایک شخص نے خود سوزی کی تھی۔

پرویز مشرف نے جب نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تو اس وقت ن لیگ کی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت تھی لیکن کوئی ایک فرد بھی نواز شریف کے حق میں احتجاج کے لیے نہیں نکلا اسی پر ایک موقع پر نواز شریف نے کہا تھا کہ ویسے لوگ بڑے نعرے لگاتے ہیں کہ قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں جب پیچھے پلٹ کر دیکھتے ہیں تو کوئی نہیں ہوتا۔ اسی طرح ایک دفعہ بھٹو نے بھی کہا تھا کہ اگر میری حکومت ختم کی گئی تو ہمالیہ پہاڑ بھی رو پڑے گا اس بیان پر الطاف گوہر نے ڈان میں اداریہ لکھا تھا اور کہا تھا کہ کہیں پہاڑ بھی رویا کرتے ہیں، ایک جلسے میں بھٹو نے اس کا ترکی بہ ترکی جواب دیا تھا کہ یہ دریا یہ آبشار اور بارشیں پہاڑ کے آنسو ہی تو ہیں۔ اسی طرح پرویز مشرف کو یہ زعم تھا کہ انہوں نے بہت اچھی حکمرانی کی ہے کروڑوں لوگ ان کے فیس بک پر فالوئرز بن چکے ہیں اس لیے وہ جب پاکستان آئیں گے تو لاکھوں لوگ ائر پورٹ پر ان کے استقبال کے موجود ہوں گے لیکن جب وہ آئے تو سو آدمی بھی نہیں تھے۔ 24 نومبر کو کیا ہوگا یہ تو اسی دن پتا چلے گا لیکن فی الوقت تو یہ الٹی میٹم ابہام کا شکار ہے ایک طرف تو بات یہ آرہی ہے کہ علی امین گنڈا پور اور گوہر کو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرلیں دوسری طرف دوسرے رہنمائوں کی طرف سے یہ بیانات آرہے ہیں کہ آنے والے اتوار کو اتنا بڑا عوام کا ہجوم ہوگا کہ وہ خود اڈیالہ جیل توڑ کر اپنے لیڈر کو رہا کرالیں گے۔ عمران خان نے جو مطالبات رکھے ہیں وہ بظاہر تو منطقی ہیں لیکن اتنے سخت ہیں کہ اب مقتدر حلقوں کا ماننا مشکل

نظر آتا ہے مثلاً پہلا ہی مطالبہ یہ ہے کہ ہمارا جو مینڈٹ چوری کیا گیا ہے وہ واپس کیا جائے اب گاڑی بہت آگے نکل چکی ہے آپ جب اس اسمبلی میں بیٹھ گئے اسپیکر کو مان لیا اور اسمبلی کی پوری کارروائی میں بھرپور حصہ لیا جارہا ہے تو اس بنے بنائے سسٹم کو (چاہے وہ جھوٹ ہی کی بنیاد پر کیوں نہ ہو) کون ایک دم سے ختم کردے گا ہاں یہ بات ہو سکتی ہے کہ ملک میں مڈٹرم انتخابات ہو جائیں یا قومی حکومت تشکیل دی جائے۔ میرا خیال ہے کہ عمران کا یہ شو بھی بری طرح فلاپ ہوگا۔

بلوچستان آپریشن کا ایپکس کمیٹی نے جو فیصلہ کیا ہے اس پر کئی سوالات اٹھائے جارہے ہیں پہلا سوال تو یہی ہے کہ اب تک جتنے آپریشن ہوئے ہیں ان میں کیا کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ اسی ماہ دو بڑے سانحات ہوئے کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر خود کش دھماکا جس میں بائیس تو صرف فوجی شہید ہوئے ہیں اسی طرح کل پرسوں بنوں کا واقعہ جس میں دس فوجی سپاہی اور دو ایف سی کے اہلکار شہید ہوئے کیا یہ ہماری انٹیلی جنس ناکامی نہیں ہے۔ عمران خان کی پالیسی پر موجودہ حکمران طبقہ بہت تنقید کرتا ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں مذاکرات کے ذریعے ہزاروں دہشت گردوں کو ملک کے اندر آنے کا موقع دیا وہی آج یہ سب کارروائیاں کررہے ہیں ایک سیدھا سا اصول یہ ہے کہ یہ دیکھ لیا جائے کہ کیا عمران خان کے دور میں ایسا تھا کہ کے پی کے بعض علاقوں میں آج کی طرح عصر کے بعد کوئی گھر سے باہر نہیں نکل سکتا تھا دوسرا پیمانہ یہ بنا لیا جائے کہ عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور میں کتنے دہشت گردی کے واقعات ہوئے اور اب پی ڈی ایم ون اور پی ڈی ایم ٹو کے دور میں کتنے خود کش حملے ہوئے اور اس میں کتنے لوگ ہلاک ہوئے ہیں عمران کے دور کی تعداد آج سے کم ہوگی اب ہمیں دیکھنا یہ ہوگا کہ مذاکرات کے بعد جو جانی نقصانات ہوئے وہ کم ہیں یا مختلف وقتوں میں ہونے والے آپریشن کے بعد جو جانی نقصان ہوئے وہ مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے کم ہیں یا زیادہ لہٰذا جس ایکشن سے کم نقصان ہوا ہو اسی کو اپنا لیا جائے۔