جاپان اور چین کے درمیان تنازعات کی کہانی نئی نہیں بلکہ صدیوں پر محیط ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کی جڑیں تاریخی دشمنی، علاقائی تنازعات، اور اقتصادی مسابقت میں پیوست ہیں۔ موجودہ حالات میں مشرقی چین کے سمندر میں جاپان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور اس کے بعد کے بیانات نے اس تناؤ کو ایک بار پھر نمایاں کر دیا ہے، لیکن کیا واقعتا یہ تنازع کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ بنے گا؟ یا دونوں ممالک سفارتی حکمت عملیوں کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے رہیں گے؟
جاپان اور چین کے تعلقات تاریخ کے مختلف ادوار میں تلخی کا شکار رہے ہیں۔ 1930 کی دہائی میں جاپانی جارحیت اور دوسری جنگ عظیم کے دوران نانجنگ قتل عام جیسے واقعات نے دونوں ممالک کے درمیان گہری دشمنی پیدا کی۔ جنگ کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں ضرور ہوئیں، لیکن سرد جنگ کے دور میں چین اور جاپان کے سیاسی نظریات کے فرق نے انہیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑا رکھا۔
1970 کی دہائی میں تعلقات بہتر ہوئے جب جاپان نے چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے، لیکن سنکاکو جزائر (جنہیں چین میں دیاؤیو کہا جاتا ہے) کے معاملے پر تنازع، اور دونوں ممالک کے سمندری حقوق کے دعوے تعلقات کو مسلسل کشیدہ رکھتے ہیں۔
رواں سال اگست میں چینی Y-9 جاسوس طیارے کی جاپانی فضائی حدود میں خلاف ورزی نے تعلقات کو مزید تناؤ کا شکار بنا دیا۔ ہرچند کہ چین نے اسے ’’محض ایک اتفاق‘‘ قرار دیا، لیکن جاپانی حکومت نے اس چینی موقف کو ’’بے بنیاد‘‘ قرار دیتے ہوئے سخت ردعمل دیا، لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ حالیہ کشیدگی کے باوجود، دونوں ممالک کے درمیان گہرے اقتصادی تعلقات ہیں۔ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ، جاپان کے دائی اِچی اٹامک ری ایکٹر سے آلودہ پانی کے اخراج کے معاملے پر چین نے جاپانی سمندری خوراک پر پابندی لگا دی تھی۔ جس کے بعد، جاپان نے چین کے ساتھ تجارتی تعلقات کو نقصان سے بچانے کی بھرپور کوشش کی، جو اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ جاپان اپنی معیشت کے لیے چین کی اہمیت کو خوب سمجھتا ہے۔
جاپان، امریکا کا قریبی حلیف ہونے کے باوجود، ایک متوازن پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ جاپان نہ صرف اپنی سرزمین کا دفاع کر رہا ہے بلکہ خطے میں استحکام کو بھی اولین ترجیح دیتا ہے۔ وزیر اعظم شیگیرو ایشیبا کی قیادت میں جاپان نے واضح کیا ہے کہ وہ علاقائی کشیدگی کو بڑھانے سے گریز کرے گا اور سفارتی ذرائع سے تنازعات کا حل نکالنے کی کوشش کرے گا۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق تاریخ اور حالیہ واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے، جاپان اور چین کے درمیان کشیدگی بھی برقرار رہے گی اور سمندری حدود، وسائل، اور عسکری حکمت عملی کے اختلافات دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے مدمقابل بھی رکھیں گے۔ لیکن دونوں ممالک کے درمیان کسی بڑی جنگ کا امکان بہت کم ہے کیونکہ دونوں ممالک اپنی معیشتوں اور عوامی مفادات کو اولیت دیتے ہیں۔
چین اور جاپان کے تعلقات ایک پیچیدہ معاملہ ہے، جس میں مخاصمت اور اقتصادی شراکت داری کا گہرا امتزاج موجود ہے۔ حالیہ کشیدگی اس بات کی یاد دہانی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان مسائل صرف جغرافیائی حدود تک محدود نہیں بلکہ تاریخی اور سیاسی وجوہات پر مبنی ہیں۔ جاپان کی متوازن حکمت عملی اور چین کے تجارتی مفادات اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ تنازعات بڑھنے کے باوجود، دونوں ممالک کسی بڑی جنگ سے بچنے کی کوشش کریں گے۔
دونوں ممالک کی یہ کہانی مشرقی ایشیا میں طاقت کے توازن کو سمجھنے کے لیے بھی انتہائی اہم ہے، جس کا ہر نیا رخ نہ صرف خطے بلکہ عالمی سیاست پر بھی اثر ڈالتا ہے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ آنے والا کل دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو کس جانب موڑے گا لیکن بظاہر مستقبل قریب میں دونوں ممالک کے درمیان کسی بڑی جنگ کا امکان نظر نہیں آرہا۔