جسٹس قاضی عیسیٰ فائز نے جاتے جاتے آخری روز ایک اہم تحریری حکم نامہ جاری کیا تھا۔ یہ حکم نامہ تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیمیں بحال کرنے کا تھا۔ یہ ایک اچھا فیصلہ تھا ظاہر ہے مستقبل نوجوانوں کا ہوتا ہے۔ تعلیمی ادارے انہیں ڈگری دے کر اپنے عملی کردار کے لیے تیار کرتے ہیں۔ ان کا ایک اہم کردار معاشرے کی تعمیر و ترقی میں ہوتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ تعلیمی ادارے ایسے نوجوان تیار کریں جو آگے بڑھ کر قوم کے لیے رہنمائی کا فریضہ انجام دیں۔ امن و برداشت، اتحاد و یکجہتی ملک کے لیے انتہائی اہم ہے۔ طلبہ یونین طلبہ کو سیاسی طور پر تربیت دیتی ہے۔ نیا خون سیاست میں داخل ہوتا ہے اور موروثی سیاست کا خاتمہ ہوتا ہے۔ یہ پاکستانیوں کا آئینی حق ہے آئین میں اس کی اجازت دی گئی ہے کہ ’’پاکستان کے شہریوں کو حق حاصل ہے کہ وہ زندگی کے جس شعبہ میں ہوں وہ اپنے اجتماعی حقوق کے حصول اور مفادات کے تحفظ کے لیے یونین بنا سکتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت ہر شعبہ زندگی میں یونین موجود ہیں خواہ ٹرانسپورٹر ہوں یا رکشہ برادری حجام ہوں یا نان بائی ہوں ان کی یونین موجود ہے جو ان کے حقوق کے لیے سرگرم رہتی ہے۔ لیکن طلبہ کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ اور یہ آج سے نہیں ہے طلبہ یونین پر پابندی 1984ء میں ضیا الحق کے مارشل لا کے دوران لگائی گئی تھی۔ ابتدا میں اس پابندی کی وجوہات طلبہ میں بڑھتا ہوا تشدد قرار دیا گیا تھا۔
یہ بات حقیقت تھی لیکن طلبہ یونینز پر پابندی اس کا حل نہیں تھا بلکہ یہ سراسر طلبہ کے ساتھ زیادتی تھی۔ اس پابندی کے باعث طلبہ کا بہت نقصان ہوا۔ طلبہ یونینز پر پابندی اختلاف رائے کو دبانے کے لیے لگائی تھی۔ لہٰذا اس کے نتیجے میں تعلیمی اداروں میں صحت مند مباحثوں اور مکالمے کا کلچر ختم ہوگیا۔ تعلیمی معیار گرتا چلا گیا اور عدم برداشت کی فضا بڑھی۔ صحت مند سرگرمیوں کے فقدان کے باعث طلبہ غیر صحت مندانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوئے نشے کے رجحانات بڑھے۔ افسوس جن اداروں میں مستقبل کے معمار تیار ہونے تھے اور جہاں ملک کا روشن مستقبل پروان چڑھنا تھا وہاں اب ملک دشمن عناصر نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ نوجوانوں کے اندر زہر انڈیلا جارہا ہے پڑھے لکھے نوجوان نشے کے عادی ہورہے ہیں ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہو رہے ہیں ان پر نظر رکھنے اور صحیح راستہ دکھانے والا کوئی نہیں۔ ان کی آواز اٹھانے والا کوئی نہیں۔ طلبہ یونینز پر پابندی کے باعث طلبہ معاشرتی سرگرمیوں سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔
اسلامی جمعیت طلبہ واحد طلبہ تنظیم تھی جس نے بطور تنظیم کام جاری رکھا۔ مولانا مودودیؒ کی قائم کردہ جماعت اسلامی کے ہراول دستے کے طور پر معاشرے میں ذمے دار کی حیثیت سے داخل ہونے سے قبل جمعیت طالب علمی کے دور میں طلبہ کی ذہنی تربیت کا فریضہ انجام دیتی رہی۔ سیاسی میدان ہو یا زندگی کا کوئی دوسرا شعبہ مخالفین بھی اس کا اعتراف کرتے رہے۔ بہت سے تو باقاعدہ جمعیت کی موجودگی اپنی بہو بیٹیوں کے لیے تعلیمی اداروں میں باعث اطمینان قرار دیتے رہے ہیں۔ جمعیت نا صرف خدمت کے ذریعے طلبہ کے مسائل کے حل کی جدوجہد کرتی ہے۔ بلکہ بنیادی اسلامی تصورات کے بارے میں رہنمائی بھی فراہم کرتی ہے۔ ان کا اجتماعی نظام نماز قرآن و حدیث کے سرکل، شب بیداریاں، درس قرآن وغیرہ طلبہ کی تربیت کرتی ہیں۔ جو والدین کے لیے ان کے بچوں کو ایک صدقہ جاریہ کے طور پر تراش خراش کر پیش کرنے کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔
طلبہ کی تعلیمی سرگرمیوں میں مدد کے لیے جمعیت بہت سے طریقوں پر عمل پیرا ہے جن میں داخلہ مہم، سیلف اسسمنٹ ٹیسٹ، اسٹڈی ایڈ پروجیکٹ، وظائف، فیسوں اور بسوں کے معاملات میں آگاہی اور سہولت پہنچانا مشکل ہیں۔ پھر یہی نہیں وہ مثبت تفریحی پروگرام کراتی ہے جو طلبہ کی ضرورت ہوتے ہیں مثلاً بک فیئر، نیلام گھر، ٹیلنٹ ایوارڈ طلبہ عدالت وغیرہ میں طلبہ بڑے جوش و خروش اور دلچسپی سے ان میں حصہ لیتے ہیں۔ وہ تعلیمی ادارے جہاں جمعیت کا سرکل نہیں ہے وہاں مثبت سرگرمیاں بھی نہیں ہیں۔ جن کے باعث ڈپریشن اور نفسیاتی مسائل طلبہ کو منشیات کی طرف متوجہ کررہے ہیں۔ منشیات کے خلاف کام کرنے والی این جی او کی سربراہ ڈاکٹر ماریہ سلطان کا کہنا ہے کہ ایک کیے گئے سروے کے مطابق تعلیمی اداروں میں منشیات استعمال کرنے والے طلبہ و طالبات کی شرح 43 سے 53 فی صد ہے۔ پھر بیروزگاری جیسے معاشی مسائل نوجوانوں کو شدت پسندی کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ کئی سال قبل پنجاب اور سندھ اسمبلی میں طلبہ تنظیموں کی بحالی کی قرار داد پاس کی گئی تھی۔ اب جب کہ عدالت عظمیٰ نے بھی تحریری حکم نامہ جاری کردیا ہے طلبہ تنظیموں کو بحال کیا جانا چاہیے۔