عدلیہ کو قابو میں رکھنے کا گُر

387

اِس حقیقت سے کسی بھی دانش مند کو اختلاف نہیں ہوسکتا ہے کہ مُلک میں عدلیہ کے وجود کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہ بات ایسی ہی ہے جیسے آدمی کے لیے ریڑھ۔ کوٹلیہ چانکیہ نے بھی اِس اصول سے کامل اتفاق کیا ہے کہ عدلیہ کا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ عوام النّاس کے حقوق محفوظ رہیں، چانکیہ نے البتّہ اِس اصول میں اپنا تڑکا یہ لگایا ہے کہ عدلیہ کا خودمختار ہونا ضروری ہے لیکن مُلک کے بادشاہ کا اختیار تمام لوگوں سے زیادہ مستحکم ہونا چاہیے۔ اُس کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ کسی بھی جج کے کسی بھی فیصلے کو حکومت کے استحقاق سے متصادم قرار دے کر مسترد کرسکتا ہے۔ بادشاہ یہ عمل اختیار کرتے ہوئے استحقاق کی تشریح کرنے کا پابند نہیں ہوگا کیونکہ بادشاہ چونکہ طاقت پھیلانے اور سمیٹنے کی قوّت کا حامل ہوتا ہے چنانچہ وہ اپنی ذات میں کامل عدل ہوتا ہے۔ یہ تو تھی بات بادشاہت کے زمانے کی‘ اب نہ تو ہمارے ملک میں بادشاہ ہے اور نہ چانکیہ جیسا کوئی مشیر اور وزیر ہے جو نئے دَور کے نئے تقاضے وضع کرسکے۔ نئے تقاضوں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے خاکسار کی سمجھ میں تو یہی آرہا ہے کہ مُلک کی عدالتوں میں حکومت کے حامی وکیلوں کو ججوں کے عہدے پر فائز کردیا جائے جو قاضی جیسے دانش مند ہوں۔ اب تو چھبیسویں ترمیم کے نتیجے میں ججوں کو بہت زیادہ دماغ استعمال کرنے کی حاجت بھی نہیں ہوگی کیونکہ حکومت کی جو مخالفت کرے گا وہ تین ماہ کے لیے اندر کردیا جائے گا اور ایسے لوگوں کو ججوں کے سامنے پیش ہونے یا پیش کرنے کا استحقاق حاصل نہ ہوگا۔ دوسری ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ چھبیسویں ترمیم کے نتیجے میں پارلیمان، وزیر ِ اعظم اور صدر کی باہمی سرگوشیاں کرکے کیا کہتے ہیں یا وہ کیا کچھ کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں، کوئی بھی خاص یا عامی نہ تو ٹوہ لگاسکتا ہے اور نہ اتحادِ ثلاثہ کے ایسے کسی بھی اقدام کو مُلک کی کسی بھی چھوٹی یا بڑی عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ متذکرہ ترمیم کا ایک ثمر وزیر ِ اعظم کے ہاتھ یہ بھی آ گیا ہے کہ اُن کی مُٹھی کھولنے پر تیرہ جج اُن کی ہتھیلی پر نمودار ہوجائیں گے اور کیا حکم ہے آقا کا نعرہ لگا کر سرنگوں ہوجائیں گے۔ باقی تیرہ جج جو بوسیدہ لباس پہنے ہوئے بیٹھے نظر آرہے ہیں اُنہیں عاجزانہ انداز میں خلعت ِ فاخرہ کی پیشکش کرکے بَیرونِ مُلک سفارت کاری کرنے پر آمادہ کرلیا جائے اور اُن کے سیکرٹریز یا اُن کے اتاشی اور ایلچی اُن وکلا کو لگا دیا جائے جو حکومت کی مخالفت میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ حکومت کے اِس اقدام کے نتیجے میں وکلا باہمی رنجش کا شکار ہوجائیں گے اور حکومت کی مخالفت تَرک کرکے ’’تُرکی بہ تُرکی‘‘ کے کھیل میں لگ جائیں گے۔

وزیر ِ اعظم صاحب عدلیہ اور بار کے دَورے کرتے ہوئے تحائف اور گرانٹ اپنے ہمراہ لے جایا کریں کیونکہ مخالفوں کے اختلاف کو تحلیل کرنے کے لیے یہ چڑھتا جادُو ہے۔ عدالتوں میں کھانے پینے کا بھی حکومت وقتاً فوقتاً اگر بندوبست کرلیا کرے تو اُن کی یہ محنت بھی ضائع نہیں ہوگی کیونکہ معدے کی راہ دل تک پہنچنے کا یہ بہترین ذریعہ ہے۔

چانکیہ اور اُس کے خیالات پر عملدرآمد کرنے والوں کے حوالے سے غالب بہت پہلے یہ فرما چکے ہیں کہ ’ایک ڈھُونڈیے‘ ہزار ملتے ہیں۔ بات اُن لوگوں کو ڈھونڈنے کی ہے جو یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ’ہم آج زمین کے اوپر ہیں اور کل اِسی زمین کے نیچے ہوں گے۔ قارئین میری اِس بات کو اُن لوگوں سے منسوب نہ کرلیں جو زندہ وتابندہ ہونے کے باوجود زیر ِ زمین رہنا پسند کرتے ہیں۔ زیر ِ زمین ہونے والی بات بھی بڑی عجیب ہے۔ کچھ لوگ شوقیہ اور کچھ لوگ مجبوراً خفیہ گوشے میں بیٹھ کر اپنا کام سرانجام دیتے ہیں جنہیں ’’زیر ِ زمین کارندے‘‘ اور انگریزی میں ’’ڈون‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ لفظ ’ڈون‘ اسپین کے شریف آدمی کو کہتے ہیں۔ علاوہ ازیں آکسفورڈ اور کیمبریج کے رُکن کو بھی ڈون کہا جاتا ہے۔ کسی زمانے میں بعض لفظوں کا استعمال بڑا عجیب تھا، مثلاً انگریزی کا لفظ NICE اگر کسی سے منسوب کردیا جاتا تھا تو وہ اُسے گالی سمجھ کر مارنے اور مرنے پر آمادہ ہوجاتا تھا کیونکہ یہ لفظ احمق، بے وقوف اور سُست لوگوں کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ اِسی طرح ہمارے ادیب اور نقّاد چالاکی اور شرارت کا مظاہرہ کرنے والے کو ’’ذاتِ شریف‘‘ کہتے ہیں۔ ہمارے مُلک میں نہ تو ڈون کی کمی ہے اور نہ ذاتِ شریف ہی کم ہیں۔ میری مُراد اُن لوگوں کے حوالے سے ہے جو مجاہد بنانے سے زیادہ مجاہد خود نظر آتے ہیں اور انصاف کرنے کا تقاضا کرنے سے پہلے وہ خود بھی انصاف کرنے کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بہرکیف! زیر ِزمین ہوجانے سے قبل ہمیں کیا کچھ کرلینا چاہیے اور ہم کیا کر رہے ہیں؟ اپنا رُخ اُس جانب کرکے دیکھنے کی ہم جب کوشش کرتے ہیں تو بہت تکلیف دہ مناظر ہمیں نظر آتے ہیں۔ لوگ بڑی بڑی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تو ضرور نظر آتے ہیں لیکن اُن کے چہروں پر بڑے پن کی جھلک نمایاں نہیں ہوتی ہے، اِس کی بڑی وجہ اُن کے کردار اور گفتار میں تضاد ہے۔