نماز میں سستی اور ترکِ صلوٰۃ

405

تحریک اسلامی کا اصل سرمایہ اس کے کارکن ہی ہیں جو اسلامی نظام کو اللہ کی زمین پر نافذ کرنے کے عزم کے ساتھ تحریک سے وابستہ ہوتے ہیں۔ اگر وہ فرائض کی ادایگی میں تساہل اور عدم توجہ برتیں تو کس بنیاد پر نظام کی تبدیلی عمل میں آئے گی۔ یہ اس لیے بھی تشویش کا باعث ہے کہ اگر ایک شخص مولانا مودودیؒ کی تحریرات کو پڑھتا ہے اور اس کے باوجود نماز کو اس کا اصل مقام نہیں دیتا تو یا تو اْس نے تحریر کو سمجھا نہیں، یا اس کا نفس حیلے تراش رہا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ مولانا مودودیؒ نے نماز کی اہمیت کو پوری طرح اْجاگر کرنے کے لیے اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر و دیگر کتب لکھی ہیں اور ان کی کتب کا مطالعہ کرنے والے اور تحریک اسلامی سے وابستہ افراد نماز کی اہمیت کو پوری طرح سمجھتے ہیں، اور نہ صرف اس کی ادایگی کا باقاعدہ اہتمام کرتے ہیں بلکہ اقامتِ صلوٰۃ کے لیے بھی سرگرمِ عمل ہیں۔ نماز میں کوتاہی پر تحریکی نظم کے تحت پرسش بھی کی جاتی ہے۔ اجتماعی احتساب کا ایک مقصد نماز کو وقت پر اور جماعت کے ساتھ ادا کرنے پر اْبھارنا ہے تاکہ للہیت پیدا ہو۔ یہ نظامِ تربیت کا ایک لازمی حصہ ہے۔

اصلاحِ حال کے لیے جہاں انفرادی مشورہ اہم ہے، وہیں اجتماعی احتساب بھی ضروری ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ الدینْ یْسر لیکن یْسر (آسانی) کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ فرائض کو نظرانداز کردیا جائے یا قرآن کریم کے واضح حکم، یعنی نماز کو مقررہ وقت پر فرض کردیے جانے کو پسِ پشت ڈال کر کوئی سہولت پسند دین ایجاد کرلیا جائے۔ فرض نماز کا سْستی اور لاپروائی سے قضا ہونا لازمی طور پر فِسق ہے۔
اگر غور کیا جائے تو تحریکِ اسلامی کے کارکن بننے کے لیے پہلی شرط محض نماز کا پڑھ لینا نہیں ہے، بلکہ اس کی اقامت، یعنی نماز کو قائم کرنا ہے۔ سورئہ بقرہ کے آغاز ہی میں اہلِ ایمان کی پہچان، تعریف اور خصوصیت یہی بتائی گئی ہے کہ: ’’وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں‘‘۔ (البقرہ: 3) یہی مضمون اسی شدت کے ساتھ دیگر مقامات پر بھی آیا۔ قرآن کریم کے ان واضح، متعین اور براہِ راست ارشادات کا عکس خاتم النبیینؐ کی احادیث صحیحہ میں بھی نظر آتا ہے، چنانچہ آپؐ نے فرمایا کہ: ’’بندے اور کفر کے درمیان ترکِ صلوٰۃ واسطہ ہے‘‘۔ (مسلم) لہٰذا اذان سننے کے بعد جو لوگ گھر اور دیگر مشغولیتوں کو چھوڑ کر اپنی بندگی کے اظہار کے لیے مسجد کی طرف نہیں جاتے، ان کے بارے میں رحمۃ للعالمینؐ نے جو سراپا رحمت ہی رحمت، عفو و درگزر، حلِم و محبت تھے فرماتے ہیں کہ ’’جو لوگ اذان کی آواز سن کر گھروں سے نہیں نکلتے، مرا دل چاہتا ہے کہ جاکر ان کے گھروں کو آگ لگا دوں‘‘۔ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)

اگر ایک شخص سے اپنی مقدور بھر کوشش کرنے کے باوجود نماز قضا ہوجاتی ہے تو وہ تارکِ صلوٰۃ یا منکرِ صلوٰۃ کی تعریف میں نہیں آئے گا۔ ہاں، ایک شخص صلوٰۃ کے علاوہ ہر کام کو اہمیت دے اور اذان سن کر ٹس سے مس نہ ہو اور اگر اْٹھے بھی تو کسمساتا ہوا، کاہلی، بے دلی اور مجبوری کے طور پر اقامت ِصلوٰۃ کی جگہ صرف نماز پڑھ لے تو اس طرزِعمل کو قرآن کریم نے فسق و نفاق سے تعبیر کیا ہے۔
’’جب یہ نماز کے لیے اْٹھتے ہیں تو کسمَساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطراْٹھتے ہیں اور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں‘‘۔ (النساء: 142)
’’پھر تباہی ہے اْن نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں جو ریاکاری کرتے ہیں‘‘۔ (الماعون: 5)
لہٰذا فرض نماز میں سْستی اور غفلت انسان میں نفاق پیدا کرتی ہے اور شعوری طور پر ترک، ایمان سے خارج کردیتا ہے۔ لیکن کسی عذر یا مجبوری کے سبب نماز قضا ہوجائے تو اسے جلد از جلد ادا کرنا ضروری ہے۔
آپ نے ان کے قرآن کا مطالعہ نہ کرنے کا ذکر بھی کیا ہے اور یہ لکھا ہے کہ اخبارات و رسائل کے لیے ان کے پاس وافر وقت ہوتا ہے، جب کہ وہ کبھی قرآن کا مطالعہ نہیں کرتے۔ قرآن سے قلبی تعلق ہی ایمان کو تازہ رکھتا ہے اور نماز میں اس کی تلاوت خشیت پیدا کرتی ہے۔ قرآن کریم کا حق ہر اہلِ ایمان پر یہ ہے کہ کم از کم اس کی چند آیات کو روزانہ بغور پڑھ کر سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔ جدید ٹکنالوجی نے اس حوالے سے بہت آسانیاں پیدا کردی ہیں۔