خالہ کے ہاتھوں بھانجی کا المناک انجام

165

کامنی کوشل ہندوستان کی انتہائی خوبصورت، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اونچی ذات کے ہندوخاندان کی مشہور فلمسٹار تھیں۔ ایک فلم میں یہ دلیپ کمار کے ساتھ ہیروئن کی حیثیت سے جلوہ گر ہوئیں۔ اس زمانے میں دلیپ کمار کی شادی کے حوالے سے کئی ہیروئن کے ساتھ مختلف اسکینڈلز سامنے آچکے تھے اس فلم میں دلیپ کمار کو کامنی کوشل سے محبت ہوگئی دوسری طرف کامنی کو بھی برصغیر کے لیجنڈ اور نامور اداکار سے الفت ہوگئی۔ فلم کی شوٹنگ کے دوران ہی دونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ فلم کے اختتام کے بعد شادی کرلیں گے۔ جب فلم مکمل ہوگئی تو کامنی کوشل کے خاندان میں ایک حادثہ ہوگیا کہ اس کی بہن کا انتقال ہوگیا جس کے دو تین بچے بھی تھے۔ کامنی کوشل کی والدہ جن کو دلیپ کمار سے شادی پر کوئی اعتراض تو نہیں تھا لیکن انہوں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ وہ اپنے بہنوئی سے شادی کرلے اس لیے کہ بچے تم سے اور تم بھی بچوں سے ایک خاص انسیت رکھتی ہو اگر اس نے کہیں اور شادی کرلی تو بچوں کی آئندہ زندگی کچھ پتا نہیں کیسے گزرے۔ اس اداکارہ کے لیے یہ ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن پھر اس نے بھانجی بھانجوں کی محبت کو ترجیح دے کر اپنی محبت کی قربانی دے دی اور اس نے دلیپ کمار سے اپنی خاندانی مجبوریوں کی بنا پر معذرت کرلی۔ اس طرح کے واقعات خاندانوں میں ہوتے ہیں خود ہمارے خاندان اور جاننے والوں میں دوستوں میں اس طرح کی شادیاں ہوئی ہیں۔ ہمارے محلے میں ایک صاحب کے چار بچے تھے کہ ان کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا بچے بھی چھوٹے تھے پھر مرحومہ کی بہن سے ان کی شادی ہوگئی، اس میں دلچسپ بات یہ کہ جن سے بعد میں شادی ہوئی یہ ان کی بچپن کی منگیتر تھیں پھر پتا نہیں کیا خاندان میں معاملات ہوئے کہ انہیں دوسری بہن سے شادی کرنا پڑی۔ ایسے موقع پر اصل چیز یہ دیکھی جاتی ہے کہ بچوں کی تربیت اور نگہداشت اچھی ہو جائے گی۔

یہ واقعہ میں نے اس لیے قلم بند کیا ہے کہ خاندان میں کئی رشتے ہوتے ہیں دادا، دادی، نانا، نانی، چچا، تایا، پھپو وغیرہ ان سب سے محبت اور اچھے تعلقات بھی ہوتے ہیں لیکن خالہ اور بھانجی بھانجوں کا جو رشتہ ہے وہ سب سے الگ اور منفرد ہے۔ میری ایک ہی خالہ تھیں جن کا 1967 میں انتقال ہوگیا تھا لیکن ان کی یادیں اور باتیں ابھی تک نظروں کے سامنے گھومتی ہیں۔ میری دو بیٹیاں ہیں بڑی بیٹی کے دو بچے ہیں میری چھوٹی بیٹی جب سسرال سے ہمارے گھر رہنے کے لیے آتی ہے اور بڑی بہن کے بچوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ ان کی آنی (یعنی ان کی خالہ) رہنے کے لیے نانی کے گھر آئی ہوئی ہیں تو وہ دونوں بہن بھائی چونکہ قریب ہی رہتے ہیں اپنی آنی کے پا س آجاتے ہیں اور پھر رات گئے تک آپس میں گپ شپ ہوتی ہے اور اگر صبح اسکول کی چھٹی ہوتو پھر رات گئے تک رت جگا ہوتا ہے دوسرے دن گیارہ بارہ بجے اٹھ کر تینوں خالہ بھانجے بھانجی ناشتہ کرتے ہیں۔ یہ تفصیل اس لیے لکھ رہا ہوں کہ خالہ بھانجی کے رشتوں میں ایک خاص انسیت ہوتی ہے جو کسی اور رشتے میں نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک نوجوان لڑکی جو خوش شکل ہے، تعلیم یافتہ ہے عمر بھی زیادہ نہیں ہے اس کے اچھے سے اچھے رشتے آئے ہوئے ہوتے ہیں پھر اس کے اپنے کچھ حسین خواب ہوتے ہیں کچھ ارمان ہوتے ہیں لیکن جب بہن کا انتقال ہوجاتا ہے تو مرحومہ بہن کے بچوں کی خاطر اپنے ارمانوں کی قربانی دیتی ہے اپنے حسین خوابوں کو ادھورا چھوڑتی ہے اور ایک کنواری لڑکی ایک دو حاجو شخص یعنی اپنے بہنوئی سے نکاح پر تیار ہوجاتی ہے۔ ہمارے خاندانوں میں دو حاجو اس فرد کو کہا جاتا ہے جس کی بیوی مرچکی ہو عوامی زبان میں تو اسے رنڈوا کہا جاتا ہے لیکن یہ ایک غیر معیاری لفظ ہے۔ ایک اور نکتہ قابل غور ہے کہ ہم اکثر خاندانوں میں یہ دیکھتے ہیں کہ کسی خاتون کی بیٹی جوان ہوئی تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی بہن کے بیٹے سے شادی ہوجائے تو اچھا ہے اسی طرح اگر کسی کا بیٹا ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی پیاری بھانجی سے بیٹے کی شادی ہوجائے۔ ویسے توخالہ بھانجی میں محبت ہوتی ہے لیکن بعض جگہ یہ محبت شدید ہوتی ہے۔

جہاں محبت شدید ہوتی ہے وہاں اگر محبت نفرت میں تبدیل ہوجائے تو نفرت بھی اتنی ہی شدید ہوتی ہے اتنی شدید کہ زارا کے منہ پر تکیہ رکھ کر اس کا سانس بند کرکے اس کا گلا گھونٹ کر جان سے ماردینے کے بعد بھی نفرت کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی اور کہا کہ اس کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جائیں اس کے بعد بھی دل نہیں بھرا کہا کہ گردن الگ کردی جائے احسن تقویم پر پیدا ہونے والا انسان جب اسفل سافلین کے گڑھے میں گر جاتا ہے تو کٹی ہوئی گردن کی طرف دیکھ کر کہتا ہے کہ یہی وہ منحوس چہرہ ہے جس نے بیٹے کو ماں سے جدا کردیا لہٰذا اس کے چہرے کو بھی آگ لگادو۔ آج 18 نومبر پیر کے اخبار میں زارا کی خالہ کا بیان شائع ہوا ہے کہ ہم نے نفرت اور حسد کی آگ میں یہ کام کیا اب جب کچھ حسد کی آگ سرد پڑرہی ہے تو یہ اقرار کیا جارہا ہے کہ مجھ سے غلطی ہوئی دیگر لوگ بھی میری وجہ سے اس مصیبت میں پھنسے ہیں اس نے اپنی بھانجی کے کردار کے بارے میں بھی کہا کہ پہلے جو الزامات لگائے گئے وہ غلط تھے۔ ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ ہے کہ جو خاتون بڑی چاہت سے اپنی بھانجی یا بھتیجی کو بیاہ کر لاتی ہے تھوڑے عرصے کے بعد وہ اس کو اپنا دشمن سمجھنے لگتی ہے کہ اس کلموہی نے ہمارے بیٹے کو ہم سے جدا کردیا یہاں بھی یہ مسئلہ تھا کہ ماں یہ سمجھ اور دیکھ رہی تھی کہ بیٹا سارے پیسے بیوی کو بھیج رہا ہے ہمیں کچھ نہیں دیتا، حالانکہ میرا خیال ہے ایسا نہیں ہوگا لیکن اگر بالفرض یہی بات مان لی جائے تو پھر بھی اس میں قصور بیٹے ہی کا ہے نہ کہ بہو کا۔ لیکن وہ تو یہ سمجھ رہی ہوگی اسی نے میرے بیٹے کو میرے خلاف بھڑکایا ہوگا اول تو یہ سمجھنا ہی غلط ہے لیکن اگر فرض کرلیں کہ شاید ایسا ہی ہو تو کیا زارا کے جرم و سزا کا تناسب ٹھیک تھا۔

ہمارے معاشرے میں یہ جو المناک سانحات ہورہے کہ بیٹا ماں باپ کو کوئیں میں پھینک رہا ہے ایک بیٹا جائداد کی خاطر اپنی ماں بہن بھاوج اور بھانجی کو قتل کررہا ہے آخر ان کی وجوہات کیا ہیں اگر ہم غور کریں تو ہمیں سب سے پہلی اور اہم وجہ یہ نظر آتی ہے کہ ہم بہ حیثیت مجموعی اسلامی تعلیمات سے دور ہوتے جارہے ہیں اسلام نے خاندان کو جو تصور پیش کیا ہے اس میں صلہ رحمی کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے یہ تو عمومی وجہ تھی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کی اسلامی نہج پر تربیت دینا ختم کردیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بچوں کو قرآن ناظرہ پڑھادیا جائے یا انہیں حافظ بنادیا جائے بلکہ انہیں دینی اقدار و روایات سے جانکاری ہونا چاہیے رشتوں کے تقدس کا شعور ہونا چاہیے ایک اور اہم وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اب ہمارے گھروں میں الا ماشاء اللہ حرام و حلال کی تمیز ختم ہوتی جارہی ہے بیوی بچوں کے معیار زندگی بلند کرنے کی خاطر معیار آدمیت کی پستی میں گرتے جارہے ہیں اب ہم نے اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ دینا کم بلکہ ختم کردیا ہے انہیں موبائل کے حوالے کردیا ہے ایک اور اہم وجہ ہمارے اندر خدا خوفی ناپید ہوگئی اس کے ساتھ ساتھ آخرت کا خوف بھی ختم ہوکر رہ گیا ہے ایک اور اہم وجہ کہ ہمارے اندر خیر خواہی اورغمگساری کی جگہ لالچ اور خود غرضی نے لے لی ہے ان سب وجوہات کا اگر نچوڑ نکالا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ ہم نے اس فانی دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے اور باقی رہنے والی دنیا یعنی آخرت کی ہماری نظر میں اب کوئی اہمیت نہیں رہ گئی۔