بارشیں نہ ہوں اور مخلوق خدا ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگے تو رحمت خداندی کو متوجہ کرنے کے لیے نماز استسقا ادا کی جاتی ہے لوگ اس نماز میں گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے اور اپنے ربّ سے باران رحمت کی دعا کرتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ بچپن میں جب ہم کھلے میدان میں نماز استسقا ادا کرنے جاتے تھے تو چھتری ساتھ لے کر جاتے تھے تا کہ واپسی پر بارش سے بچائو ہوسکے۔ ہوتا بھی یہی تھا کہ ادھر نماز استسقا ادا کی اور اچانک بادل اُمڈ آئے اور بارش ہونے لگی۔ اب بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی اپیل پر ملک کے مختلف شہروں میں نماز استسقا ادا کی گئی پھر لوگوں نے دیکھا کہ ہوائیں بارش کا سندیسہ بھی لے آئیں اور ہر طرف جل تھل ہوگیا۔ ہم جب یہ سطور لکھ رہے ہیں تو اس وقت بھی بادل چھائے ہوئے ہیں اور برسنے کے لیے اپنے ربّ کے حکم کے منتظر ہیں۔ اس موسم سرما میں تو اکثر ایسا ہوا ہے کہ بادل گھر کر آئے آسمان پر اندھیرا چھا گیا لیکن قدرت کی طرف سے انہیں اذنِ باراں نہ ہوا اور وہ بغیر برسے فضا میں تحلیل ہوگئے۔ پورا اکتوبر اور نومبر کا نصف حصہ اسی حال میں گزرا کہ ہر طرف گرد جمی تھی کیا انسان کیا حیوان سبھی منہ اوپر اٹھائے بارش کی دعا مانگ رہے تھے کہ قدرت کے اپنی مخلوق پر رحم آیا اور اس نے انہیں بارش کی پھوار سے نواز دیا۔ لیکن یہ بارش ابھی اونٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق ہے ابھی بہت بارش کی ضرورت ہے۔
بارش اللہ کی رحمت و نعمت اور زندگی کی علامت ہے۔ قرآن کریم میں کئی جگہ بارش کا ذکر اس حوالے سے کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ بارش سے کس طرح مردہ زمین لہلہا اُٹھتی ہے اور اپنے اندر چھپے ہوئے خزانے انسانوں کے لیے اُگل دیتی ہے۔ بے شک انسانوں نے زراعت کے لیے آبپاشی کا نظام بھی ایجاد کرلیا ہے۔ وہ نہروں اور ٹیوب ویلوں کے ذریعے کھیتوں کو پانی دیتے اور اپنی مطلوبہ فصل حاصل کرتے ہیں لیکن پاکستان سمیت دنیا کے بیش تر علاقے اب بھی بارانی ہیں جہاں کسان کھیتوں میں ہل چلا کر بیج تو بودیتے ہیں لیکن اسے بار آور ہونے کے لیے بارش کے منتظر رہتے ہیں۔ بارش بروقت ہوجائے تو ان کے دل کی کلی کھل اُٹھتی ہے اور بیج پودوں کی شکل میں زمین سے سر نکال لیتے ہیں پھر دیکھتے ہی دیکھتے فصل لہلہانے لگتی ہے اور کسان کی محنت ٹھکانے جالگتی ہے۔ پاکستان میں سب سے نقد اور فصل گندم کی ہے جس پر اہل وطن کی خوراک کا انحصار ہے۔ ایک زمانہ تھا جب پنجاب پاکستان کا اناج گھر کہلاتا تھا وہ متحدہ پاکستان میں مشرقی پاکستان کو بھی گندم فراہم کرتا تھا اور گندم کی کمی کا کوئی رونا نہ تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ جنرل ایوب خان کے زمانے میں گندم کا آٹا پچاس پیسے فی کلو فروخت ہوتا تھا جو اب ڈیڑھ سو روپے فی کلو پہنچ گیا جبکہ فی من آٹے کی قیمت اٹھارہ روپے تھی۔ اس کی قیمت میں دو روپے فی من اضافہ ہوا تو عوامی شاعر حبیب جالب بلبلا اُٹھا
بیس روپے من آٹا
اس پر بھی ہے سناٹا
صدر ایوب زندہ باد
وہ حیران تھا کہ عوام اس اضافے پر خاموش کیوں ہیں۔ احتجاجاً سڑکوں پر کیوں نہیں آئے۔ آج کوئی حبیب جالب نہیں جو آٹے کی اس جان لیوا مہنگائی پر عوام کو جھنجھوڑ سکے۔ مشرقی پاکستان سے ہم کب کے بری الذمہ ہوچکے۔ گندم کی کھپت کم ہوگئی لیکن اب ہم سے اپنا گھر بھی پورا نہیں ہوتا اور ہم یوکرین سے درآمد شدہ کیڑوں بھری گندم عوام کو کھلا رہے ہیں۔
لیجیے صاحب بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ہم پھر اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ نماز استسقا کے نتیجے میں کہیں کہیں بارش تو ہوئی لیکن کھل کر نہیں ہوئی۔ یہ گندم کی بوائی کا مہینہ ہے۔ بارانی علاقوں میں کسان ہل چلا کر کھیت میں بیج تو ڈال دے گا پھر اس کی نگاہیں آسمان پر لگ جائیں گی کہ کب اللہ کی رحمت کو جوش آئے اور باران رحمت کا نزول ہو۔ بارشیں ہوں گی تو سردی میں بھی نکھار آئے گا اور کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے میں مزہ آئے گا۔ امیر ہوں یا غریب سب اس موسم کو انجوائے کرتے ہیں لیکن غربت کی ایک سطح ایسی ہے جہاں کوئی موسم اسے راس نہیں آتا۔ حکمرانوں نے عوام کو اس سطح پر پہنچا دیا ہے۔ موسم کی بات ہورہی ہے تو اسموگ کا ذکر کیے بغیر چارہ نہیں جس نے اِن دنوں پنجاب خصوصاً لاہور اور ملتان میں قیامت ڈھا رکھی ہے اور لوگ آنکھ ناک اور گلے کی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ دھند تو سردی کا خاص تحفہ ہے۔ ہمارے بچپن میں موسم سرما کے دوران صبح کے وقت اتنی دھند پڑتی تھی کہ بعض اوقات دن کے بارہ بجے تک سورج نظر نہیں آتا تھا۔ اب کئی سال سے اس دھند کے ساتھ دھواں بھی شامل ہوگیا ہے۔ اسے انگریزی میں اسموگ (SMOG) کا نام دیا گیا ہے، جو اسموگ (SMOKE) اور فوگ (FOG) کا مخفف ہے۔ اس طرح انگریزی لغت میں ایک نئے لفظ کا اضافہ ہوا ہے اور یہ لفظ اہل پنجاب پر قیامت ڈھا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھارتی پنجاب میں چاول کی فصل کاٹنے کے بعد زمین میں جو اس کی باقیات رہ جاتی ہیں اسے جلانے سے جو دھواں پیدا ہوتا ہے اسے اسموگ کہتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں جو رپورٹ آئی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ اصل میں یہ وہ دھواں ہے جو ناقص گاڑیوں سے سڑک پر چھوٹتا ہے۔ سڑک پر چلنے والی ایسی بسوں، ٹرکوں اور کاروں کی بھرمار ہے جو چلتے ہوئے کالا دھواں چھوڑتی ہیں جو دھند کے ساتھ مل کر اسموگ بن جاتا ہے اور انسانی صحت کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ ٹریفک قوانین کے مطابق اَن فٹ گاڑیاں سڑکوں پر نہیں چلائی جاسکتیں لیکن اس قانون کا مانتا کون ہے۔ حکومت ایسی گاڑیوں کو سڑک پر آنے سے روک سکتی ہے لیکن وہ اس کام میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ حکومت کے اعصاب پر تو پی ٹی آئی سوار ہے جو اسے ہر طرف دھواں چھوڑتی نظر آرہی ہے۔ اس نے 24 نومبر اور اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے تو اسلام آباد کو پھر کنٹینروں کے حصار میں دیا جارہا ہے۔ بہرکیف سیاسی اسموگ کا رخ اب اسلام آباد کی جانب ہے۔ دیکھیے حکومت اس پر کیسے قابو پاتی ہے۔