عالمی یوم اطفال اور کچی بستیوں کے پسماندہ بچے

103

ہر سال دنیا بھر میں 20 نومبر کو بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کا مقصد بچوں کے حقوق کو اجاگر کرنا اور ان کے بہتر مستقبل کے لیے آواز بلند کرنا ہے۔ یہ دن ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ہر بچہ، چاہے وہ کسی بھی ملک، طبقے یا علاقے سے تعلق رکھتا ہو، تعلیم، صحت، صاف پانی اور ایک محفوظ زندگی جیسے بنیادی حقوق کا حقدار ہے۔ تاہم، کراچی کی کچی آبادیوں کے بچے، جن کا بچپن محرومیوں اور مشکلات میں گزرتا ہے، اس دن کی حقیقی اہمیت کو محسوس کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ مضمون ان بچوں کی حالت زار کو بیان کرتا ہے اور ان کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کے لیے اقدامات کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔

کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر، لاکھوں خوابوں، امیدوں اور زندگیاں اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ لیکن اس چمکتے دمکتے شہر میں پسماندہ کچی آبادیاں بھی ہیں، جہاں بے شمار بچے شدید محرومی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ بچے، جو ہمارے ملک کا مستقبل ہیں، روزانہ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ایک دنیا میں زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صاف پانی، تعلیم، صحت اور معیاری خوراک جیسے حقوق ان کے لیے صرف ایک خواب ہیں۔

یہ بچے ایک سخت ماحول میں پروان چڑھتے ہیں، جہاں زندگی ان کے لیے آسان نہیں۔ ان کے پینے کے لیے پانی آلودہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ہیضہ، پیچش اور ٹائیفائیڈ جیسی بیماریاں عام ہیں۔ صحت کی سہولتیں ان کے لیے دستیاب نہیں ہیں، اور بیماری کی صورت میں اکثر غیر تربیت یافتہ افراد یا گھریلو علاج پر اکتفا کیا جاتا ہے، جس سے صورتحال مزید خراب ہو جاتی ہے۔

تعلیم، جو ایک بنیادی حق ہے، ان بچوں کے لیے خواب بن کر رہ جاتا ہے۔ کچی آبادیوں میں موجود اسکول یا تو غیر فعال ہیں یا وسائل کی کمی کا شکار ہیں۔ غربت کے باعث یہ بچے کم عمری میں مزدوری پر مجبور ہو جاتے ہیں اور اپنی قابلیت اور خوابوں کو معمولی آمدنی کے لیے قربان کر دیتے ہیں۔

غذائیت کی کمی ایک اور سنگین مسئلہ ہے۔ ان بچوں کو روزانہ کی بنیاد پر معیاری اور صحت بخش خوراک تک رسائی حاصل نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے ان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ غربت اور وسائل کی کمی کے باعث اکثر خاندان کھانے کی مقدار پر توجہ دیتے ہیں، لیکن غذائی معیار کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچے مختلف غذائی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی جسمانی و ذہنی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔

لڑکیوں کے لیے مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔ کم عمری کی شادی، صفائی کی سہولتوں کی کمی، اور صنفی تشدد جیسے مسائل ان کی زندگی کو مزید مشکل بنا دیتے ہیں۔

کراچی کی کچی آبادیوں کے بچوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے فوری اقدامات اور مختلف جہتوں پر کام کرنا ضروری ہے۔ صاف پانی کی فراہمی کے لیے حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ ان علاقوں میں پانی کے فلٹریشن پلانٹ لگائے جائیں اور پانی کے پائیدار انتظامی نظام بنائے جا سکیں۔ تعلیم کے حق کو یقینی بنانے کے لیے کمیونٹی اسکولوں کا قیام ضروری ہے، جو مفت اور معیاری تعلیم فراہم کریں۔ یہ اسکول بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لیے وظیفے اور پیشہ ورانہ تربیتی پروگرام بھی پیش کریں۔

صحت کی سہولت فراہم کرنے کے لیے موبائل ہیلتھ کلینکس متعارف کروائے جا سکتے ہیں، جو کچی آبادیوں میں رہنے والوں کو بنیادی صحت کی خدمات فراہم کریں۔ ساتھ ہی صفائی، غذائیت اور بیماریوں کی روک تھام کے بارے میں آگاہی مہمات بھی چلائی جائیں۔

بچوں کو معیاری خوراک کی فراہمی کے لیے فوڈ بینک اور غذائیت کے پروگرام شروع کیے جا سکتے ہیں، جن کے ذریعے ان بچوں کو صحت بخش اور غذائیت سے بھرپور کھانے کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ اسکولوں میں مفت کھانے کے پروگرام بھی متعارف کروائے جا سکتے ہیں تاکہ بچے غذائی قلت کا شکار نہ ہوں اور اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں بہتر کارکردگی دکھا سکیں۔

غیر سرکاری تنظیمیں، سول سوسائٹی اور کارپوریٹ سیکٹر ان بچوں کی زندگی میں مثبت تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تنظیمیں کچی آبادیوں کو گود لے کر وہاں تعلیم، صحت اور خوراک کی سہولت فراہم کر سکتی ہیں۔ رویے میں تبدیلی کی مہمات کے ذریعے ان علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو بچوں کے حقوق کے بارے میں آگاہ کیا جا سکتا ہے۔

بچوں کا عالمی دن ہمیں اس حقیقت کا سامنا کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ کراچی کی کچی آبادیوں کے بچے صرف ان کے خاندان کی نہیں، بلکہ ہم سب کی ذمہ داری ہیں۔ یہ ناقابل قبول ہے کہ ہم انہیں محرومی میں پروان چڑھتا دیکھیں جبکہ شہر کے دوسرے حصے ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ حکومت، تنظیموں اور کمیونٹیز کے اشتراک سے ان بچوں کو وہ مواقع فراہم کیے جا سکتے ہیں جن کے وہ مستحق ہیں۔ صاف پانی، معیاری خوراک، تعلیم، اور صحت جیسی بنیادی سہولتیں فراہم کرنا ایک بہتر اور مساوی معاشرے کی تعمیر کا پہلا قدم ہوگا۔