جنگ بندی نہیں اسرائیل کا خاتمہ

214

حماس سے جنگ میں مصروف دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور ہونے کی دعویدار اسرائیلی فوج نے وزیر اعظم نیتن یاہو سے جنگ بند کرنے کی درخواست کی ہے، ایک سال سے زیادہ عرصہ بارود کی بارش کرنے کے بعد اسرائیلی فوج کے سینئر افسران نے نیتن یاہو کو بتایا کہ حماس کے پاس موجود یرغمالیوں کی رہائی کے لیے جنگ بندی کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ اسرائیلی انٹیلی جنس اور سیکورٹی چیفس نے وزیراعظم نیتن یاہو کو بریفنگ میں بتایا کہ حماس کے پاس موجود اسرائیلی یرغمالیوں کی حالت نازک ہے اور ان کی رہائی کے لیے اب جنگ بندی کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ اسرائیلی جنرلز نے بتایا کہ بیش تر یرغمالیوں کا وزن خوراک کی کمی کے سبب آدھا رہ گیا، ایسی صورت میں موسم سرما میں یرغمالیوں کی زندگی پر سوالیہ نشان ہے۔ اسرائیلی جنرلز بزدلی کا اعتراف تو کر نہیں سکتے تھے اس لیے یرغمالیوں کا سہارا لیا، لیکن انہوں نے یرغمالیوں کا وزن بھی معلوم کر کے بتادیا کہ وہ آدھا رہ گیا ہے، یہ خوب بات کی ہے۔ اور یہ کہ خوراک کی کمی کے باعث ایسا ہورہا ہے، اوّل تو جتنے یرغمالی رہا ہوئے ہیں سب نے بتایا ہے کہ حماس کے مجاہدین نے خود نہیں کھایا ہمیں اچھا کھلایا ہے اور یہ تجربہ امریکی اور روسی بھی افغانستان میں کرچکے ہیں، ان کو معلوم بھی ہے کہ مسلمانوں کے جنگی اصول ہوتے ہیں اسرائیل کی طرح غیر انسانی طریقے سے جنگ نہیں لڑتے۔ اور یہ کہ اگر خوراک کی کمی ہے تو اس کا ذمے دار بھی نیتن یاہو ہی تو ہے۔ امداد کے راستے تو اسی نے روک رکھے ہیں، دوائیں اسی نے بند کررکھی ہیں ، اسپتالوں پر وہی بمباری کررہا ہے سویلین کو بھی وہی نشانہ بنارہا ہے، یہ مطالبہ تو طاقتور فوج کا اعتراف شکست ہے۔ جنرلز ہمیشہ وہ بات نہیں کہتے جو سچ ہو، بلکہ ملک قوم عوام کی فلاح کے بات کرتے، مسئلہ فلسطین کا حل تو یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینی علاقے خالی کرے اسرائیلی ریاست کوئی چیز نہیں ہے اسے دنیا سے جبراً منوایا گیا ہے، یرغمالیوں کی رہائی سمیت خطے میں امن کی ضمانت اسرائیل کے خاتمے سے ملے گی، جنگ کا سبب یرغمالی نہیں ہیں یہ تو ایک سال قبل یرغمالی بنے تھے فلسطین پر قبضہ تو اسی سال سے جاری ہے اور نہتے فلسطینیوں کے خلاف جنگ بھی اسی برس سے جاری ہے۔ یہ جنگ صہیونیوں کے قبضے سے شروع ہوئی تھی اس کے خاتمے ہی سے ختم ہوگی۔ دوسری جانب یرغمالیوں کی رہائی اسرائیل میں اس قدر سنگین معاملہ ہے کہ اب ان کی رہائی کے لیے اسرائیل میں مظاہرے بڑھ گئے ہیں اس دوران ایک مظاہرے میں مظاہرین نے نیتن یاہوکے گھر پر حملہ بھی کیا۔ 2 فلیش بم نتین یاہو کے قیصریہ میں موجود گھر کے باغ میں گرے مگر کوئی نقصان نہیں ہوا اور نیتن یاہو یا ان کے خاندان میں سے کوئی گھر پر موجود نہیں تھا جب کہ اسرائیلی وزیراعظم کے گھر پرحملے کے الزام میں 3 افراد کوگرفتار بھی کیا گیا ہے۔ نیتن یاہو کے گھر پر حملے پر بیان دیتے ہوئے اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ تمام ریڈ لائنز پار کرلی گئی ہیں، یہ ممکن نہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم جنہیں ایران اور دیگر مزاحمتی قوتوں کی جانب سے قتل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے انہیں اب اپنے گھر سے بھی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے۔ ترجمان درست کہہ رہا ہے لیکن پہلے اسرائیل نے ریڈ لائنز پار کی تھیں پھر مزاحمت ہوئی پھر یرغمالی بنے اور اب گھر کے لوگ بھی تنگ ہیں، الٹے سیدھے بیانات اور خود ساختہ ریڈ لائنز کی باتیں غیر ضروری ہیں اسرائیل قبضہ چھوڑے اور نکل جائے، ورنہ یہ جنگ کسی نہ کسی طرح جاری رہے گی۔ اس کے بجائے اسرائیل نئی نئی جنگیں چھیڑ رہا ہے، جنگ کو پھیلا رہا ہے، تاکہ اس کے قبضے پر بات نہ ہو، بلکہ جنگ بندی اور بحالی تعمیر نو وغیرہ کی بات کی جائے۔ ایک جانب تو اسرائیلی جنرلز اپنے وزیر اعظم کو جنگ بندی کی تجاویز دے رہے ہیں اور دوسری جانب مسلمان ممالک کے جرنیل خاموش بیٹھے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ اپنے حکمرانوں کو مشورہ دیں کہ مظلوم فلسطینیوں کو ظلم سے نجات دلانے کے لیے فوجی کارروائی کریں، خوراک پہنچائیں دوائیں پہنچائیں راستے کھلوائیں، اور جو رکاوٹ ڈالے اسے راستے سے ہٹادیں۔ لیکن یہ کام کرے گا کون؟ فوجیں تو مسلمان ممالک کی بھی مضبوط اور طاقتور ہیں، لیکن جس جرأت اور بہادری کی ضرورت ہے، لگتا ہے مسلم حکمران اور جرنیل اس سے عاری ہیں، اگر ترکی نیتن یاہو کے لیے فضائی حدود بند کرسکتا ہے تو باقی مسلمان ملک کیوں نہیں کرسکتے، اسرائیل کی جانب سے جنگ پھیلانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ دنیا اصل معاملہ بھول جائے۔ لیکن فلسطینی اصل معاملہ کیسے بھولیں گے جو اپنی چوتھی پانچویں نسل کو قبلہ اوّل کی آزادی کے لیے کٹوانے کو تیار ہیں، یہی جذبہ بتا رہا ہے کہ اب اسرائیل کے خاتمے کی بات کی جائے۔