ایک نیا بحران

93

پاکستان کی سیاست میں کرپشن کی اس قدر آمیزش ہوچکی ہے کہ اللہ کی پناہ‘ اب اللہ ہی جانتا ہے کہ یہ کرپشن کب ختم ہوگی۔ نظر یہی آرہا ہے کہ یہ ختم ہوتے ہوتے کئی عشروں کا وقت کھا جائے گی، اس کی وجہ یہ ہے کہ اب کرپشن کو جرم نہیں سمجھا جارہا ہے۔ نیب قانون میں ترمیم ہوئی کہ اب پچاس کروڑ سے کم کرپشن کا کیس وہ نہیں دیکھ سکتا تو معیار کیا ہوا؟ یہی کہ کرپشن وہ ہوگی جس میں پچاس کروڑ سے زائد کا غبن ہوگا۔ گویا یہ اب طے ہوگیا کہ جس نے بھی انچاس کروڑ کی کرپشن کی نیب اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔

ان دنوں پورا پنجاب اسموگ کی لپیٹ میں ہے اور اسموگ نے اسلام آباد میں بھی ڈیرے جما لیے ہیں، اسلام آباد اس وقت اسموگ کے ’’وکٹری اسٹینڈ‘‘ پر تیسرے نمبر پر کھڑا ہے۔ پہلے پر لاہور اس کے بعد ملتان اور پھر اسلام آباد۔ اسلام آباد تو سر سبز شہر تھا یہاں اسموگ کیوں پھیلی؟ اس کی سب سے بڑی وجہ سی ڈی اے کی کرپشن، شہر میں روزانہ سیکڑوں درخت کاٹے جارہے ہیں اور درخت کاٹنے والا مافیا تنہاء نہیں بلکہ سی ڈی اے کا عملہ اس نے خرید رکھا ہے۔ اسلام آباد کی کسی بھی شاہراہ پر نکل جائیں آپ کو سائیکل، موٹر سائیکل اور حتیٰ کہ سوزوکی وین دیکھنے کو ملیں گی جن پر درختوں کے کٹے ہوئے تنے لاد کر لوگ بے خوف ہوکر لے جارہے ہوں گے۔ درختوں کی غیر قانونی کٹائی سڑک کے کنارے درختوں کی نہیں ہورہی بلکہ اسٹریمنگ کے نام پر شہر کے خوب صورت باغ روز گارڈن اور یاسمین گارڈن اور اسپورٹس کمپلیکس کے جنگل ٹریک کے درخت بھی کاٹے جارہے ہیں۔ سی ڈی اے کہتا ہے کہ کٹنے والے درخت پرانے ہیں، واہ کیا منطق ہے؟

شہر میں مافیا کس قدر نقصان پہنچا رہا ہے وزیر داخلہ کو اس کی پروا ہے نہ چیئرمین سی ڈی اے کو؟ دونوں اپنے عہدے انجوائے کر رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جب اسلام آباد ایک خوبصورت شہر تھا وہ زمانہ لد گیا۔ اب اس شہر میں اس قدر آلودگی ہے کہ شہری سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں اور تجاوزات تو اب حد سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہیں کہ یہ شہر اب دارالحکومت نہیں بلکہ ملک کا ایک پس ماندہ علاقہ دکھائی دینے لگا ہے۔ رہائشی سیکٹرز میں گرین بیلٹس ختم ہوچکی ہیں ان پر اب تجاوزات کی بھرمار ہے۔ فٹ پاتھ ٹوٹ چکے ہیں، سڑکیں اپنا وجود کھو چکی ہیں، شہر میں بغیر نمبر پلیٹ موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کی بھرمار ہے اور شہر کی پولیس نمبر ون کرپٹ۔ پولیس ناکے بھتا خوری کے اڈے بن چکے ہیں۔ وزیر داخلہ کیا کرے؟ وہ کرکٹ سنبھالے یا وزارت داخلہ؟ لیکن ان کی بھی ضد ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک ذمہ داری پوری ہو نہ ہو۔ دونوں میں سے کوئی ایک بھی عہدہ چھوڑنا نہیں ہے۔ اب کہا جارہا ہے کہ اسموگ کا مسئلہ ایک دن میں نہیں بلکہ لگ بھگ 10 سال میں حل ہوگا، حکومتوں کی نااہلی کی سزا عوام بھگت رہے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ یہی سیاستدان ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ لاہور، راولپنڈی اور اب اسلام آباد میں آبادی کے بے ہنگم پھیلاؤ کو روکنے میں بری طرح ناکامی کی وجہ سے یہ تمام شہر آج اسموگ سمیت بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی وجہ ٹریفک کا بڑھ جانا ہے۔

شہروں کا یہ حال ہے کہ محض ڈرائیونگ لائسنس بانٹے جا رہے ہیں مگر سڑک پر چلنے والی گاڑیوں کی انسپیکشن کا کوئی نظام سرے سے موجود نہیں کہ گاڑیوں کی فٹنس چیک کی جاسکے کہ وہ سڑکوں پر آنے کے قابل ہے بھی یا نہیں۔ دنیا بھر کی تحقیق بتا رہی ہے کہ اسموگ میں سب سے بڑا کردار سڑکوں پر دوڑتی گاڑیوں کا ہے۔ جن سے ہونے والا اخراج دنیا کے ماحول کو آلودہ کر رہا ہے۔ گاڑیوں کا دھواں ہر سال موسم برسات کے بعد سردی کے آغاز میں اسموگ کی بڑی وجہ بن رہا ہے۔ ہماری اپنی نااہلیوں اور نالائقیوں کی وجہ سے اپنے ہاتھوں سے پیدا کردہ بدترین اسموگ، بدحال معیشت، لاقانونیت، برے کاروباری حالات، تعلیم و صحت کی سہولتوں کا فقدان، طاقتور طبقوں کی دھونس، میریٹ برائے نام، بے ایمانی، رشوت کی بھرمار، تاریک مستقبل جیسے بڑے مسائل نے ملک کو اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ شہر اب رہنے کے قابل نہیں رہے۔