معاشی ترقی کی بڑھکیں

192

پاکستانی حکمران اب بھی پرانی پنجابی فلموں کے ہیرو اور ولن کی طرح بڑھکیں مار کر اور سیاسی مخالفین پر جگت کس کر کام چلارہے ہیں، اور اب تو اپوزیشن کی بڑی پارٹی پی ٹی آئی نے نیا چلن عام کردیا ہے اس کے بانی بھی جلسوں میں وہی انداز اختیار کرتے رہے جو فلموں میں ہوتا تھا ،اور بیرون ملک اپنے سیاسی اختلاف کا اظہار چور، ڈاکو کہہ کر کیا جارہا ہے اور اب تو حملوں تک نوبت آگئی ہے ، آجکل مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت ہے اور ان کی جانب سے بڑھکیں مارنے کا سلسلہ جاری ہے ،وفاقی وزیر خزانہ نے جو کچھ کہا اسے بڑھک ہی کہا جاسکتا ہے حقیقت سے اس کا تعلق نہیں۔انہوں نے دعوی کیا کہ معیشت مستحکم ہو رہی ہے ‘ مہنگائی 38 سے7 فیصد پر آگئی ہے ، آئی ایم ایف حیران ہے کہ پاکستانی معیشت 14 ماہ میں کیسے سنبھل گئی،آئی ایم ایف نے کہا ہے 14ماہ میں خسارہ سرپلس میں لانا خوش آئند ہے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے مہنگائی اور پالیسی ریٹ میں کمی آئی ہے۔ وزیراعظم کی قیادت میں معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔یہ ایسا دعوی ہے کہ آئی ایم ایف سے زیادہ ملک کے عوام حیران ہیں کہ مہنگائی کی شرح 38 فیصد سے کم ہو کر 7 فیصد پر آگئی ہے اور سبزی ،دال، چاول، گوشت مرغی، پھل دوائیں، ٹرانسپورٹ کے کرائے، بجلی و گیس کے بل برھ گئے ہیں اور ہر چیز پر ٹیکس پہلے سے زیادہ ہوگیا ہے اور عوام کی آمدنی اسی جگہ جامد ہے ،حکومت کا پیمانہ یہ ہے کی ہم نے جتنی مہنگائی بڑھاکر اسے سینتیس فیصد پر پہنچایا تھا اب وہ سات فیصد پر آگئی ہے ، لیکن یہ بات ایک بڑھک سے زیادہ نہیں ہے، کیونکہ عوام کو ہر چیز مہنگی مل رہی ہے ، پھر مہنگائی میں کمی کیسی ، خوردنی تیل پر تو دو ہفتے قبل بھاری اضافہ ہوا ہے ، عام تیل درمیانے درجے کا 470 روپئے فی لیٹر مل رہا تھا لیکن اب یہی 550 روپئے کا ہوگیا ہے ،اسی طرح،دالیں سبزیاں خصوصا پیاز ،ٹماٹر لہسن ادرک وغیرہ روز مرہ استعمال والی چیزیں بھی مہنگی ہوگئی ہیں، حکومتی دعوے کے اعتبار سے تو خوردنی تیل چارسو روپئے لیٹر ملنا چاہیے، اسی طرح بجلی گیس وغیرہ کی قیمتوں کی شرح تو حکومت نے بڑھائی ہے ،اگر بلوں میں معمولی کمی ہے تو موسم سرد ہونے کے سبب پنکھوں کا کم استعمال ہے۔ٹماٹر پیاز تو ایسا لگتا ہے کہ کسی دوسرے براعظم کی پیداوار ہیں وہاں سے لانا پڑتا ہے اس لیے مہنگے ہیں، یہ سب بھی حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے مہنگے ہوئے ہیں، اپنا سارا خرچہ سرکاری کھاتے میں کرنے والے حکمران یہ جان ہی نہیں سکتے کہ مہنگائی کیا ہوتی ہے اور مہنگائی میں کمی کس کو کہتے ہیں۔ اس دعوے کے بعد وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ عالمی مالیاتی اداروں کا پاکستان پر اعتماد بڑھ رہا ہے، آئی ایم ایف وفد سے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہوئی، معیشت کی بہتری کے لیے مقررہ اہداف حاصل کریں گے تمام شعبوں میں اصلاحات کا عمل جاری ہے۔یہ بات تو ٹھیک ہے کہ آئی ایم ایف کا پاکستان پر اعتماد بڑھ رہا ہے لیکن اس کا مطلب کیا ہے ،اعتماد بڑھنے کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ مزید قرضے دینے کو تیار ہے۔اس کا دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق حکومت پاکستان لوگوں کا خون نچوڑ رہی ہے،اس لیے شاباشی ملی ہے۔لیکن کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہونے پر اسی وقت یقین کیا جاسکتا ہے جب آئی ایم ایف شرائط اور معاہدے کو عام کیا جائے گا، ابھی تو کسی کے علم میں نہیں کہ شرائط کیا تھیں ،اور معاہدہ کیا ہوا ہے۔ جب تک بین الاقوامی معاہدات شفاف نہیں ہونگے دعووں پر کیسے یقین کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ معیشت کی بہتری کے لیے تمام شعبوں کو اپنا کردارادا کرنا ہے، وزیراعظم جلد معاشی میپ پیش کریں گے، اس کے علاوہ ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ لیکن جناب مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں کئی مرتبہ رہی ہیں اب تک روڈ میپ ہی دیے جارہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کا چیلنج درپیش ہے اور موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اس کے لیے تو عالمی سطح پر بہت فنڈز ہیں بس مانگنے کا ڈھنگ اوراچھا ریکارڈ لے کر جائیں پیسے ملیں گے، ویسے بھی یہ حکمران آفات کا انتظار کرتے ہیں تاکہ امداد مانگنا آسان ہو جائے۔یہ بات معاشیات کے کسی طالبعلم سے پوچھ لیں کہ قرض کی بے ساکھی سے معیشت چلتی ہے یا ملک ترقی کرتے ہیں یا نہیں۔ معیشتوں کی بہتری سے متعلق حکومتی دعووں پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں ہے ، ترقی اور استحکام کے اشاریوں میں سے بعض اہم ہیں اور ان کو سمجھنا بھی آسان ہے ، سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ عوام پر کیا فرق پڑا ہے ، اس بارے میں امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے بھی سوال کیا ہے کہ کیا پیٹرول کی قیمت انہوں نے کم کی ہے، کیا بجلی کے بلوں میں کوئی کمی کی گئی ہے۔ کیا حکومت نے لوگوں کو کوئی ریلیف دیا، کسان کے لیے یوریا اور ڈی اے پی کو سستا کیا گیا۔ کیا کسی غریب آدمی کے بچے کو بھی معیاری تعلیم ملنے کا کوئی امکان پیدا ہو گیا ہے آئی پی پیز کا مسئلہ وہیں کا وہیں ہے لوگوں کے بجلی بلوں پر کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے۔ حکومت نے پانچ آئی پی پیز بند کیں، 13 سے بات کی،لیکن اس کا اثر بجلی کے بلوں میں نہیں آیا۔ حکومت نے ونٹر پیکج کا اعلان کیا اور لو گوں کو بیوقوف بنایا۔ پٹرول پر ساٹھ روپے لیوی لی جارہی ہے۔ معیشت عوام کو ریلیف دینے اور حکمرانوں کی عیاشیاں ختم کرنے سے بہتر ہوگی۔ 40 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں پاکستان میں 10 کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ حکومت ہر روز منی بجٹ لاتی ہے۔ پھر بھی کہا جارہا ہے کہ منی بجٹ نہیں لارہے۔ان کے سوالات پوری قوم کی ترجمانی ہیں۔ حکمرانوں کو اس جانب سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے ، اگر بروقت توجہ نہیں دی گئی تو یہ طبقاتی تفاوت اور حکمران طبقے کی مراعات اور عوام پر ٹیکسوں کا رویہ پورے نظام کولے بیٹھے گا۔پاکستانی قوم کو اس قسم کے دعوے سنتے ہوئے کئی عشرے گزر چکے ہیں ، کبھی پاکستان کو ایشین ٹائیگر قرار دیا جاتا ہے ، کبھی پاکستان کو بھارت سے آگے ظاہر کیا جاتا ہے ، قوم کو اس طرح کہانی سنائی جاتی ہے کہ سی پیک گیم چینجر ہے ، لیکن اس منصوبے کو ایک عشرہ ہونے کو ہے لیکن قوم کے نصیب میں کوئی چینج نہیں آیا ،اب یہ بتایا گیا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہورہا ہے اور یہ بھی گیم چینجر ہے ،لیکن اس سے بھی گیم میں کوئی چینج نہیں آئی، یہ سارے دعوے محض دھوکا ثابت ہوئے۔قوم کو اب لالی پاپ نہیں ٹھوس عمل کی ضرورت ہے۔