میں جب بھی چھت پر کپڑے دھونے جاتی تو ایک خاتون درمیانی عمر کی میٹھی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے دیکھ رہی ہوتی تھی۔ تھوڑے دنوں تک تو میں نے ان کو نظر انداز کیا ۔لیکن جب بھی میں کپڑے دھونے جاتی اس کی تھوڑی ہی دیر بعد وہ اپنی گیلری میں کھڑی مسکراتی نظر آتی۔مجھے ان کی ادا پسند آنے لگی اور میں بھی جوابا مسکرا دی۔ مسکراہٹوں کے تبادلہ ایک انجانہ رشتہ بن چکا تھا۔ہماری چھتیں ایک دوسرے سے دور ہونے کی وجہ سے آپس میں بات چیت نہیں ہو سکتی تھی۔چند دنوں تک وہ خاتون نظر نہیں آرہی تھی۔میں بھی اس بات کو فراموش کرنے کی کوشش کرتی رہی۔لیکن دل کے کونے میں یہی سوال چھپا بیٹھا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ وہ خاتون نظر نہیں آرہی؟ ان کے دو بیٹے تھے جو ابھی پڑھ رہے تھے چند دنوں بعد ان کے گھر کے اگے ٹینٹ لگا نظر ایا۔اہل محلہ سے پوچھا تو بتایا کہ ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا ہے۔میرے ذہن میں وہی مسکراہٹ والی خاتون گھومنے لگی۔معلوم کرنے کو پتہ چلا کہ انہی خاتون کا انتقال ہوا ہے۔اس انتقال کو ایک ماہ ہو گیا ہے۔لیکن اس خاتون کی مسکراہٹ کی ادا نے ان کو ذہن سے فراموش ہی نہیں ہونے دیا۔جب میں کپڑے دھونے جاتی۔بے اختیار نظریں اس گیلری کی جانب اٹھ جاتی تھی۔ابھی صبح میں اپنی بچی کو وین میں بٹھاتے ہوئے واپس پلٹی تو دیکھا کہ ان کا بیٹا ہوٹل سے چائے خرید کر لے کر جا رہا ہے۔گھر میں ماں نہ ہونے کی وجہ سے بچے اور شوہر بھی پریشانی کا شکار ہے۔ایک عورت گھر سے چلی جائے تو وہ گھر نہیں رہتا ایک سراے بن جاتا ہے۔