نئی امریکی انتظامیہ اور فلسطینیوں کا قتل ِ عام

410

ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو امریکا کے 47 ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے۔ جن کی کامیابی کے وقت یہ کہا جارہا تھا کہ ٹرمپ کی جیت امریکی اسٹیبلشمنٹ کے منہ پر طمانچہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حلف اٹھانے سے قبل ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دوسرے دور کے لیے اہم عہدوں پر نامزدگیاں کر دی ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے ٹرمپ امریکا کی سخت گیر اسٹیبلشمنٹ کا حامی اور مدد گار ہے جس میں انہوں نے عالم اسلام پر واضع کر دیا ہے وہ ان خیالات سے باہر نکل جائیں کہ ٹرمپ امریکی اسٹیبلشمنٹ سے الگ کسی اور مخلوق کے قریب ہیں اور وہ مسلمانوں کے لیے کسی بھی قسم کی ہمدردی کے ساتھ کام کریںگے۔ ان کی کابینہ کا انتخاب بتا رہا ہے کہ ٹرمپ کے دور میں اسرائیل کا دفاع سب سے اہم اور فلسطین کے لیے موت ہی موت کی پالیسی جاری رہے گی اور اس پروگرام میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔ اس کے ساتھی ہی کابینہ کی تازہ ترین لائن اپ میں ٹرمپ نے ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس کے لیے سینیٹر تلسی گیبارڈ کو نامزد کر دیا ہے جس کے ماتحت سی آئی اے، ایف بی آئی سمیت امریکی انٹیلی جنس کے 18 ادارے ہر منٹ کی رپورٹ دینے کے پابند ہیں۔ ٹرمپ نے ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس تلسی گیبارڈ پہلے کرسچن تھیں لیکن بعد میں وہ اپنے شوہر اور پورے خاندان سمیت ہند مذہب شامل ہو گئیں اور امریکا کی پہلی سینیٹر ہیں جنہوں نے 2012ء میں سینیٹ میں انجیل کے بجائے ’’گیتا‘‘ پر حلف اُٹھایا تھا اور اس بات میںکوئی دو رائے نہیں ہے کہ وہ بھارت کی دنیا بھر سے امریکا پہنچنے والی دہشت گردی کی رپورٹ پر دبیز سیاہ پردہ ڈالنے میں ہر طرح سے کوشش کریں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تلسی گیبارڈ انٹیلی جنس کی تمام رپورٹیں امریکی صدر کو براہ راست پیش کریں گی۔ ان کا عہدہ صدر ِ امریکا کے بعد سب سے بڑا ہے۔ ان کے دفتر میں دنیا بھر کی انٹیلی جنس رپورٹ موصول ہوں گی۔ دوسرے کابینہ کے رکن مارکو روبیو نامزد سیکرٹری خارجہ جنہیں ٹرمپ نے ’’بے خوف جنگجو‘‘ قرار دیا۔ سب سے بڑھ کر اٹارنی جنرل کے لیے زیر تفتیش میٹ گیٹز کو نامزد کیا ہے۔ ان تینوں میں مشترک یہ ہے کہ یہ تینوں اسرائیل بھارت دوست، فلسطینیوں کے سخت دشمن اور عالم اسلام و پاکستان مخالف ہیں۔ مارکو روبیو نامزد سیکرٹری خارجہ سینیٹ کے ایسے ارکان میں شامل ہیں جنہوں نے ماضی میں ہمیشہ پاکستان کے خلاف سینیٹ میں پیش کیے جانے والے بلوں کی منظوری میں اپنا کلیدی کر دار ادا کیا ہے اور اب بھی یہی توقع ہے کہ وہ پاکستان کے لیے ماضی کے ہنری کسنجر ثابت ہوں گے۔

جن لوگوں کو اب تک کابینہ میں شامل کیا گیا ہے ان ایکس کے مالک ایلون مسک سے لے کر ٹرمپ کے قریبی ساتھی اور دوست شامل ہیں۔ ان تعیناتیوں سے ماہرین یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ٹرمپ کی پالیسی کیا ہو گی؟ مشرق وسطیٰ پر امریکا کیا موقف اپنائے گا اور کیا وہ اسرائیل کی حمایت ہی جاری رکھے گا؟ لیکن اعلانات یہ بتا رہے ہیں ٹرمپ 2016ء کی اسرائیل حمایت پالیسی جاری رکھیں گے۔ اور فلسطین کو مکمل طور سے اسرائیلی پالیسی میں اس کی ہر ممکن مدد کریں گے۔ مشرق وسطیٰ کے لیے نامزد خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف جن کی مہارت یہ ہے کہ وہ ٹرمپ کی مہم میں عطیات دیتے اور ان کے ساتھ گولف بھی کھیلتے رہے ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل کے لیے نامزد امریکی فیر مائیک ہکابی کو اسرائیل نواز ہونے کے لیے جانا جاتا ہے جو ایک کاروباری شخصیت بھی ہیں۔ ایک اور سابق سفارت کار کا کہنا ہے کہ ا سٹیو وٹکوف کا مشرق وسطیٰ سے کوئی براہ راست تعلق نہیں رہا تو اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ اہم عہدوں پر تعیناتی میں وفاداری کو ترجیح دے رہے ہیں۔ تاہم اسٹیو وٹکوف اور مائیک ہکابی کے علاوہ اقوام متحدہ میں امریکا کے سفیر کی نامزدگی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ اسرائیل کی کھل کر حمایت کریں گے۔ اس کے علاوہ تما م اہم عہدوں پر ایسے لوگوں لایا جارہا ہے جس سے یوکرین جنگ بند کرکے پیوٹن کو امریکا دوست اور چین کا مخالف بنایا جائے دوسری جانب بہت سے قدامت پسندوں کو بھی شامل کیا گیا ہے جو چین کو امریکی اثر رسوخ کے لیے معاشی اور عسکری اعتبار سے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ نے چین پر تنقید کو تجارت تک محدود رکھا ہے تاہم ان کی خارجہ امور کی ٹیم چین کے نقادوں سے بھر رہی ہے۔ ٹرمپ نے مائیک والٹز، ایک سابق فوجی کرنل، کو قومی سلامتی امور کے مشیر نامزد کیا ہے جو ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ امریکا اور چین سرد جنگ کی کیفیت میں ہیں۔ امریکا سے یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ چینی حمایت یافتہ ہیکرز نے سابق صدور کے فون سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔

امریکا کا ایک طاقتور عہدہ سیکرٹری خارجہ کا ہوتا ہے جہاں موجود روبیو کو خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک شاطر ماہر سمجھا جاتا ہے جنہوں نے ماضی میں کہا تھا کہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری تنازع کو ’نتیجے تک پہنچانے‘ کی ضرورت ہے۔ ان کی نامزدگی کا اعلان کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’روبیو آزادی کی ایک مضبوط آواز‘ اور امریکا کے لیے ’طاقتور وکیل‘ ثابت ہوں گے جس کا مطلب یہی ہے کہ سیکرٹری خارجہ اسرائیل کے بھی طاقتور وکیل ہوں گے۔ رپورٹوں کے مطابق روبیو ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران اور مختلف ٹی وی پروگراموں میں اپنے خارجہ پالیسی کے تجربے کے متعلق بات کرکے اس عہدے کے لیے ٹرمپ کی نظروں میں آنے کی کوشش کر رہے تھے۔ فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے نائب سربراہ کے طور پر کام کر رہے ہیں اور وہ خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے بھی رکن ہیں۔ 53 سالہ روبیو بنیادی طور پر امریکا کے اعلیٰ سفارت کار کے طور پر کام کریں گے۔ اگر ان کی اس عہدے کے لیے منظوری دی گئی تو وہ امریکی تاریخ میں پہلے لاطینی سیکرٹری خارجہ ہوں گے۔

اٹارنی جنرل ایوان نمائندگان کی ایتھکس کمیٹی میٹ گیٹز کے خلاف جنسی بے ضابطگی، منشیات اور اختیارات کے غلط استعمال کی تحقیقات کر رہی ہے۔ اٹارنی جنرل نامزد ہوتے ہی میٹ گیٹز نے بطور رکن کانگریس استعفا دے دیا، یوں اْن کے خلاف تحقیقات ختم ہو گئی ہیں۔ اب وہ ٹرمپ کی طرح قانون سے آزاد ہیں۔ امریکا کے انتخاب کے دوران عالم اسلام کے عقل مند اور بلکہ کم عقل کہنے کی ضرورت ہے کہ اس بات کی آس لگائے بیٹھے تھے کہ ٹرمپ کی کامیابی سے غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام بند ہو جائے گا اور اسی لیے سروے کے مطابق 80 فی صد امریکی مسلمانوں نے ٹرمپ کو ووٹ ڈالا ہے لیکن اب جو امریکا کی انتظامیہ میدان ِ عمل میں آئی ہے وہ فلسطینیوں کے مکمل خاتمے کا ہدف دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔