جس طرح جوش صاحب کے متعدد، متواتر اور متلذذ معاشقوں کا جواز جناب جوش ہی دے سکتے تھے اسی طرح عمران خان کی احتجاج کی کالوں کا جواز بھی عمران خان ہی پیش کرسکتے ہیں۔ جیل میں بیٹھے بیٹھے وہ احتجاجی کالز دینے کے ایسے ہی عادی ہوگئے ہیں جیسے کوئی حرص بتاں کا گرفتار۔ جیل کے، تنہائی کے، ڈسنے والے روزو شب، بندہ کیا کرے؟
یار آشنا نہیں کوئی، ٹکرائیں کس سے جام
کس دلربا کے نام پہ خالی سبو کریں
دلربائوں کی تو عمران خان کی یادوں میں کمی نہیں، جو بے شک بے پناہ ہیں، لیکن کب تک ان سے دل بہلایا جائے۔ جیل سے نکلنے کی بھی تو کوئی ترکیب، کوئی آس، ہو۔ اس کے لیے عمران خان نے 24 نومبر کی آخری کال دے دی ہے، ’’ڈو اور ڈائی، کرو یا مرو‘‘ کی حتمی کال۔ سیاست دان جب ڈو اور ڈائی کا نعرہ لگاتے ہیں تو اس کے مخاطب ان کے افراد خانہ اور بیوی بچے نہیں بلکہ سیاسی ورکرہوتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی تمام تر قیادت کی موجودگی کے باوجود اس کال کا عمران خان کی بہن اور بشری بی بی کی نند محترمہ علیمہ خان نے اعلان کیا۔ موروثی سیاست کی لاکھ برائی کی جائے جیسا کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے باب میں عمران خان کرتے رہے ہیں، یہ تنقید دل کے لبھانے کے تو بہت کام آتی ہے لیکن جب کل وقتی مخالفت ہو، زمین و آسمان دشمن ہوں، آسمانوں نے خانہ انوری کا انتخاب کرلیا ہو، دشمنوں نے شہ رگ پر ہاتھ رک دیا ہو، تب اپنے ہی کام آتے ہیں، اپنوں پر ہی بھروسا کیا جاسکتا ہے۔ پارٹی کی قیادت پر اتنا اعتبار تو نہیں کیا جاسکتا جتنا بیوی اور ہمشیرہ پر۔
لفظ ترمیم میں اگرچہ ’’میم‘‘ آتی ہے لیکن اس کے باوجود عمران خان چھبیسویں ترمیم کو پسند نہیں کرتے۔ چوبیس نومبر کی ان کی کال کا پہلا ہدف چھبیسویں ترمیم کی واپسی ہے۔ پارلیمان کی منظور کردہ ترمیم کی وہ سڑکوں پر احتجاج کے ذریعے واپسی چا ہتے ہیں!! دوسرے وہ جمہوریت اور آئین کو بحال کروانا چاہتے ہیں۔ جمہوریت اور آئین کے بارے میں عمران خان کا حال منٹو جیسا ہے کہ اس رئیس زادی کو وہ خود چا ہے نو کر کے بستر میں سلادیں، یہ آرٹ اور زندگی ہے لیکن دوسری جماعتیں ایسا کریں تو یہ ناجائز اور فحاشی ہے۔ صدر ان کاہو، وہ خود وزیراعظم ہوں اور تمام اپوزیشن جیل میں چکی پیس رہی ہو، قاعدہ عمرانی میں یہی جمہوریت اور آئین کی بحالی ہے۔ تیسرے وہ 18 فروری کے چوری شدہ مینڈیٹ کی واپسی چاہتے ہیں۔ عمران خان نے کبھی کسی کا مینڈیٹ تسلیم نہیں کیا لیکن اپنے 2018 کے مینڈیٹ پر وہ ریشہ خطمی ہیں۔ ان کے مینڈیٹ کا ذکر ہو تو خوش مزاجی لیکن دوسروں کے مینڈیٹ کی بات کی جائے تو وہ لاحول ولا قوۃ سے ہوتے ہوئے لڑائی جھگڑے پر اتر آتے ہیں۔ چوتھے وہ تمام بے گناہ سیاسی قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں۔ جن میں وہ خود اور نومئی کے گرفتار شدگان بھی شامل ہیں۔ 24 نومبر کے حوالے سے نوید یہ ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت مثلاً گنڈاپور وغیرہ احتجاج کی خود قیادت کریں گے اور خود جیل سے قیدیوں کو رہا کروائیںگے۔ اور کیا چا ہیے؟؟
عمران خان کی احتجاجی کالیں صرف اور صرف قدر ایاز والا معاملہ ہیں۔ ختم ہوتے آپشنز میں اقتدار کی سیر گاہوں میں عمران خان کی گل گشتی کی تکرار اور ان کی واپسی۔ یہی واحد ہدف ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ محض افسانہ اور زیب داستان کے لیے ہے۔ نو مئی کے بعد تحریک انصاف جس طرح طوفانوں کی زد میں آئی تھی 8 فروری کے انتخابات کے بعد اس زور میں کافی کمی آگئی تھی، تحریک انصاف کو قدم جمانے کی کچھ مہلت ملی، پختون خوا میں ان کی صوبائی حکومت بن گئی اور مرکز میں اپوزیشن کی قیادت بھی مل گئی لیکن اس عزت افزائی میں عمران خان کے حصے میں کچھ نہیں آیا۔ ان کے بارے میں مقتدر حلقوں کا یہ فیصلہ بدستور رہا کہ عمران خان جیل میں ہی رہیں گے۔ عمران خان اس سچویشن کو توڑنا چاہتے ہیں۔ وہ نیلسن منڈیلا بننے پر تیار نہیں۔
عمران خان کی جیل سے رہائی کی ایک صورت تو یہ ہوسکتی ہے کہ نیک نیت عدالتیں انہیں گڈ ٹو سی یو کہتے ہوئے ریلیف دینا شروع کردیں جیسا کہ عدالتوں نے ریلیف دینا شروع کر رکھا تھا تاہم نئی قانون سازی نے اب ان ججوں کو بے بس کردیا ہے جو تحریک انصاف کے شریک بزم تھے اور موجودہ حکومت کا عدالتی قتل کرکے عمران خان کی واپسی کی راہ ہموار کرنا چاہتے تھے۔ پاکستان میں یہ ممکن ہے عدالتی پروسیجر کو اتنا لمبا کردیا جائے کہ سزا دیے بغیر مقدمات میں الجھاکر کسی بھی شخص کو سال ہا سال جیلوں میں رکھا جاسکے جیسا کہ آصف علی زرداری کے معاملے میں کیا گیا تھا۔ عمران خان کے معاملے میں بھی ایسا ہی کیا جاسکتا ہے۔ رہائی کی دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ خان صاحب مذاکرات کا راستہ اختیار کریں۔ اس میں مسئلہ یہ ہے کہ خان صاحب محبت اور تقریر تو روانی سے کرتے ہیں لیکن مذاکرات ان جیسے انا پرست شخص کے بس کی بات نہیں، دوسرے جنہیں وہ چور اور ڈاکو قرار دیتے رہے ہیں ان سے مذاکرات کرنا نہیں چاہتے، تیسرے وہ جن سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں وہ ان سے بات کرنا نہیں چاہتے۔ اس کے بعد تیسرا راستہ احتجاج کی کالوں کا ہی باقی بچتا ہے۔ عمران خان بار بار اس بند راستے کو کھولنا چاہتے ہیں جن کے نتیجے میں کوئی ایسی ملک گیر تحریک چلے یا تو شہباز حکومت کا خاتمہ ہو جائے یا اسٹیبلشمنٹ اس بات پر مجبور ہوجائے کہ عمران خان سے بات کرے اور انہیں دوبارہ وزیراعظم ہائوس چھوڑ کر آئے۔
احتجاج کی کالوں نے اب تک تحریک انصاف کو کچھ نہیں دیا۔ گھیرائو جلائو اور احتجاج سے تحریک انصاف کی انرجی نہ صرف ضائع اور کم ہوئی بلکہ ان کی راہ کی تکالیف میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ یہ احتجاج کی کال ہی تھی جس کے نتیجے میں نو مئی کا واقعہ پیش آیا جس کے بعد عمران خان کے لیے اسٹیبلشمنٹ اور اقتدار کے راستے بند ہوگئے۔ ایک ماہ پہلے بھی جو کال دی گئی تھی جس میں پختون خوا سے گنڈاپور کی قیادت میں جلوس آیا تھا اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا سوائے پی ٹی آئی کی قیادت کے اندرونی اختلافات اور انتشار کی عریانی کے۔ یقینا عمران خان کو اس صورتحال کا ادراک ہوگا۔ پھر کیوں وہ ایک نئی احتجاجی کال پر بضد ہیں؟ 24 نومبر کی کال سے تقدیر بدلنے کے امکان دراصل ٹرمپ کے حوالے سے ہیں۔ پی ٹی آئی کی امریکا کی قیادت اور سپورٹرز نے حالیہ امریکی الیکشن میں روپے پیسے، بھاگ دوڑ، بات چیت اور لابنگ سے ٹرمپ کی بہت مدد کی ہے۔ ممکن ہے اس کے عوض ٹرمپ عمران کی رہائی کے لیے ایک آدھ ٹوئٹ کردیں یا کوئی بیان دے دیں اور بس۔ عمران خان اس سے بڑھ کر چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں عمران خان کی رہائی کے حوالے سے کچھ نہ کچھ چلتا رہے۔ دس ہزار سپورٹرز باہر نکلیں یا دوہزار، خان صاحب چاہتے ہیں کہ مظاہرے جاری رہنے چاہییں، پولیس تشدد، عوامی احتجاج، کچھ زخمی، کچھ لاشیں اور گڑ بڑ تاکہ زیادہ سے زیادہ انٹر نیشنل میڈیا اور ٹرمپ کی توجہ حاصل کی جاسکے۔ سوال یہ ہے کہ ایک تھکی ہوئی، دلبرداشتہ اور منقسم قیادت اور پی ٹی آئی سپورٹرز ایسی تحریک بپا کر پائیں گے ؟ اور اس دبائو کو برداشت کر پائیں گے جو اس کے جواب اور ردعمل میں انہیں جھیلنا اور برداشت کرنا پڑے گا؟؟