دنیا سمجھتی ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بہت چالاک اور دور اندیش ہے، وہ قوانین بھی بہت پہلے سے بدل لیتی ہے اور ادارے بھی اپنی مرضی کے بنا لیتی ہے، اور جو ادارے بنے ہوئے ہوتے ہیں ان کے قوانین بھی تبدیل کرلیتی ہے، انتخابی نتائج بدلنے کی بادشاہ ہے وغیرہ وغیرہ، پاکستان میں آئینی ترامیم تو بہت ہوچکیں، آٹھویں ترمیم اور اٹھارویں ترمیم بھی بہت مشہور ہوئیں اور سرعت سے منظوری کا تو سب ہی میں مقابلہ ہے، لیکن چھبیسویں آئینی ترمیم اس حوالے سے شاہکار سمجھی جارہی تھی کہ اس دوران قطر کے حکمرانوں نے وہ شاہکار کام کیا کہ چھبیسویں ترمیم کے خالقوں کے بھی منہ کھلے رہ گئے۔ گزشتہ ہفتے قطری حکام نے بتایا کہ قطر میں مجلس ِ قانون ساز کے انتخابات ختم کرنے کے لیے ہونے والا ریفرنڈم 90 فی صد سے زیادہ ووٹوں کے ساتھ پاس ہوگیا ہے جس سے اس خلیجی ریاست کے شاہی نظام میں جمہوریت کے ساتھ مختصر دلچسپی بھی ختم ہوگئی ہے۔
قطری وزارتِ داخلہ کے مطابق اس ووٹ نے آئینی ترامیم کی منظوری دے دی جس کی حمایت میں قطری شہریوں نے 90.6 فی صد ووٹ دیے۔ اتنی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے جانے پر ہمیں جنرل ضیاء الحق کی بادشاہت کا ریفرنڈم یاد آگیا، جس میں بچے بچے نے ووٹ ڈالا اور اسی طرح بے حساب ووٹ ڈالے گئے 97 اعشاریہ 8 فی صد ووٹ ڈالے گئے، اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کو طیارے کے حادثے کے ذریعے راستے سے ہٹایا گیا۔ اس کے بعد فی صد کے اعتبار سے زیادہ مقبول ریفرنڈم جنرل مشرف نے کرایا اس کا نتیجہ 97 اعشاریہ 97 فی صد نکالا گیا لیکن مشرف کے ریفرنڈم میں خود ہی دعویٰ کیا گیا کہ 56 فی صد ووٹ ڈالے گئے، انہیں بھی وکلا کی تحریک کے ذریعہ ہٹایا گیا۔
پاکستانیوں نے چھبیسویں ترمیم میں اپنی دانست میں چھکا مارا تھا اور ہمارے جیسے اونچی اور دور کی کوڑیاں لانے والے اس قسم کی تجاویز دینے پر غور کررہے تھے کہ بس ایک اور ترمیم کرکے الیکشن کا جھگڑا ہی ختم کردیا جائے اور ترمیم میں لکھا جائے کہ چونکہ آرمی چیف کی مدت بھی پانچ سال ہوگئی ہے اور ججوں کی مدت بھی پانچ سال، پارلیمنٹ کی مدت تو ہے ہی پانچ سال تو بس تمام اختیارات آرمی چیف کے حوالے کرکے پارلیمان کے اراکین کو ان کے ماتحت کردیا جائے اگر کوئی ایسا نہیں سمجھتا تو اپنی غلط فہمی دور کرلے، وہ ماتحت ہی ہے۔ یہ بھی تجویز کیا جائے کہ ملک کا نظام چلانے کے لیے عدلیہ سے مدد لی جائے، جو حسب ضرورت قانون بناتی جائے، لیکن قطری حکام نے جو ریفرنڈم کرایا وہ شاندار کارنامہ ہے، دھاندلی کی شکایت نہ عدم اعتماد کا ٹنٹا، پاکستان میں بھی پارلیمنٹ اور جمہوریت محدود اختیارات کی حامل اور برائے نام ہے اور قطر میں تو علی الاعلان رسمی جمہوریت تھی، اگر ختم بھی ہوگئی تو کیا فرق پڑے گا، پاکستانی سیاستدان اپنی غلط فہمی دور کرلیں کہ وہ بھی کسی جمہوریت کا حصہ ہیں، تو آسانی سے وہ بھی قطری ماڈل قبول کرلیں گے۔ اور ان کی بھی اسی طرح تعریف ہوگی جیسی قطری حکام نے اپنے عوام کے بارے میں کی ہے۔ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آلِ ثانی نے ایکس پر پوسٹ کیا، کہ ’’ریفرنڈم میں حصہ لے کر اور آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دے کر قطریوں نے اتحاد اور انصاف کی اقدار کا جشن منایا ہے‘‘۔ جیسے پاکستان مین جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دیتے ہوئے جان کے دشمن سیاسی گروہ یکجان ہوگئے تھے ان کی بہت تعریف کی گئی تھی اور چھبیسویں ترمیم منظور کرانے والوں کی بھی۔
قطری وزارت داخلہ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ تقریباً 3 لاکھ80 ہزار قطریوں میں سے 84 فی صد اہل ووٹرز نے جس ریفرنڈم میں حصہ لیا اس کی اہم تجویز یہ تھی کہ محدود اختیارات کے حامل مشاورتی ادارے شوریٰ کونسل کی 45 میں سے 30 نشستوں کے لیے انتخابات ختم کیے جائیں۔ قطر میں تو سچ بول کر جمہوریت یا الیکشن ختم کیے گئے ہمارے حکمران تو دھونس، دھاندلی، آر ٹی ایس اور فارم 47 کو جمہوریت ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں بلکہ جو نہ مانے وہ بھارتی ایجنٹ، ٹی ٹی پی کا یا ملک دشمن ہے۔ ایک دفعہ اس حقیقت کو تسلیم کرلیں پھر ملک ترقی کی راہ پر سرپٹ دوڑے گا، کیونکہ سیاستدانوں کو گیٹ نمبر چار جانے یا وہاں جانے کے لیے گاڑی کی ڈکی میں چھپنے کی ضرورت نہیں ہوگی اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کو بھی کسی کے خلاف عدم اعتماد اور لوٹے لانے کی ضرورت نہیں ہوگی، بلکہ قومی اخراجات میں بھاری کمی ہوگی، الیکشن کروا کر بھی عوامی نمائندوں کی جگہ اسٹیبلشمنٹ کے پٹھو بٹھانے ہیں تو الیکشن اور الیکشن کمیشن کی بھی ضرورت نہیں۔ بس ایک ترمیم کرالیں۔