قضیہ فلسطین: امریکی انتخابات کا فیصلہ کن نقطہ

77

امریکا میں انتخابات مکمل ہونے کے بعد سیاسی ہل چل تھم گئی ہے ۔ ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے فتح حاصل کرکے اپنی حریف کملا ہیرس کو چاروں شانے چت کردیا ہے۔ امریکا میڈیا اور تجزیہ کار ڈیموکریٹس کی اس ناکامی کا جائزہ لے کر پس پردہ غلطیاں اور عوامل تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عرب اور مسلمان امریکی ووٹروں نے ڈیموکریٹس کو عہدے سے ہٹانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور کملا ہیریس اوول آفس تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ حقائق کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ 5 نومبر کو ڈیموکریٹس کی ذلت آمیز شکست کی بڑی وجہ غزہ میں اسرائیلی جنگ اور نسل کشی میں ان کا ناقابل تردید کردار تھا۔ گزشتہ ہفتے کے انتخابات نے ایک مضبوط پیغام دیا کہ فلسطین نہ صرف عربوں اور مسلمانوں کے لیے ، بلکہ بہت سے امریکیوں کے لیے بھی اہمیت رکھتا ہے۔ انتخابات میں ڈیموکریٹس کی شکست کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ خود ان کی اپنی پارٹی تھی، جس نے اسرائیل کا ساتھ دے کر اپنے اقتدار کا نذرانہ پیش کیا۔

اس موضوع کو پیٹر بینارٹ نے نیویارک ٹائمز میں اپنے 7 نومبر کے آپشن ایڈ یشن میں بہترین انداز میں پیش کیا، جس کا عنوان تھا ’’ڈیموکریٹس نے غزہ کو نظر انداز کیا اور اپنی پارٹی کو زوال کا شکار کیا‘‘۔ انہوں نے لکھا کہ اسرائیل کے قتل عام اور فلسطینیوں کو تادم مرگ بھوک میں مبتلا کرنے میں امریکی ٹیکس دہندگان کی امانت میں نقب لگائی گئی اور تل ابیب کو مالی اعانت فراہم کی گئی ۔
امریکی انتخابی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ ایک بیرونی قضیہ فتح و شکست میں کسوٹی بن کر ابھرا۔ اس دوران دونوں جماعتوں نے امیگریشن، رنگ و نسل و قومیت اور دیگر نکات پر توجہ مرکوز کی اور انتخابی مہم میں اپنے حامیوں سے وعدے بھی کیے، تاہم قضیہ فلسطین امریکا کا گھریلو سیاسی مسئلہ بن گیا ۔ عرب ووٹروں، سیاہ فام ووٹروں اور دیگر اقلیتی گروہوں کے علاوہ بڑی تعداد میں سفید فام امریکیوں نے بھی فلسطین کو ترجیح دے کر ڈیموکریٹس کو دیوار سے لگانے میں اہم کردار ادا کیا۔

برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ ڈیموکریٹس اب تعداد بڑھانے کے لیے نوجوان ووٹروں پر بھروسا نہیں کر سکتے، کیوں کہ کملا ہیرس اس صدی میں 18 سے 29 سال کی عمر کے ووٹروں میں سب سے زیادہ غیر مقبول امیدوار رہیں۔ نوجوان امریکیوں میں فلسطین کے لیے مضبوط حمایت کو سامنے رکھ کر امریکی سیاست دانوں کو آنے والے دنوں میں بہت زیادہ فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

مارچ 2023 ء میں گیلپ کے ذریعے کرائے گئے ایک سروے میں اشارہ کیا گیا تھا کہ پہلی بار امریکیوں کی ہمدردیاں اب اسرائیلیوں سے زیادہ فلسطینیوں کے ساتھ ہیں اور صہیونی ریاست کے لیے حمایت کا تناسب 49 فیصد کے مقابلے میں 38 فیصد ہوگیا ہے۔ اپریل میں پیو ریسرچ سینٹر کی طرف سے کرائے گئے ایک سروے کے مطابق نوجوان امریکی آبادی اسرائیلیوں کے مقابلے میں فلسطینی عوام کے ساتھ ہمدردی کا زیادہ امکان رکھتی ہے، جب کہ 30 سال سے کم عمر افراد کی ایک تہائی تعداد فلسطینیوں کے ساتھ مکمل ہمدردی کا اظہار کرتی ہے۔ صرف 14 فیصد اسرائیلیوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ مختلف جائزوں کے دوران حیران کن طور پر امریکی ڈیموکریٹک حلقہ اسرائیل سے زیادہ فلسطین کا حامی دکھائی دیا۔ ایسا نہیں ہے کہ انتخابی مہم میں نوجوانوں کی یہ تعداد ڈیموکریٹس کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ کملا ہیریس نے نوجوانوں اور اقلیتی گروہوں کے ووٹوں پر بھرپور توجہ مرکوز کی، لیکن دانستہ یا نادانستہ طور پر اصل نکتے سے صرف نظر کرکے سنگین غلطی کی۔

یہ بات کسی سے مخفی نہیں تھی کہ بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کے جنگی مشن کی مالی اعانت اور اسے برقرار رکھنے میں مرکزی کردار ادا کیا اور غزہ میں اسرائیلی نسل کشی میں بالواسطہ شریک رہی۔ اس دوران امریکی یونیورسٹیوں میں احتجاج کی بھرپور لہر بھی اٹھی، جسے طاقت کے زور پر دبا دیا گیا۔ اس کے علاوہ مختلف مواقع پر ہونے والے احتجاج کو پرتشدد شکل دے کر متنازع بنانے کی کوشش کی گئی۔ شاید بائیڈن انتظامیہ کی انہی چیرہ دستیوں کا لاکھوں امریکیوں نے نوٹس لیا اور انتخابات میں اجتماعی غیظ و غضب کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈیموکریٹس کو دھول چٹادی۔

براؤن یونیورسٹی کی جانب سے جنگی اخراجات کے منصوبے سے متعلق تیار کردہ رپورٹ کے مطابق بائیڈن انتظامیہ نے جنگ کے پہلے سال میں اسرائیل کو کم از کم 17.9 ارب ڈالر کی فوجی امداد دی تھی۔ ایک غیر منافع بخش تحقیقاتی اخبار پروپبلیکا کی 4 اکتوبر کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق امریکا نے 7 اکتوبر 2023 ء سے اسرائیل کو 50ہزار ٹن سے زیادہ ہتھیار بھیجے ۔
دوسری جانب انتخابات میں شکست کے بعد بھی جوبائیڈن اپنی صہیونیت پرستانہ روش سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ ڈیفنس نیوز کے مطابق صدارتی انتخابات کے نتائج کے اعلان کے چند ہی گھنٹے بعد اسرائیلی وزارت دفاع نے امریکی مینوفیکچرر بوئنگ سے 5.2 ارب ڈالر میں ایف 25اور آئی اے 15 لڑاکا طیاروں کے حصول کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے، جس میں مزید 25 طیارے حاصل کرنے کا آپشن بھی شامل ہے۔

تاہم امریکا میں فلسطین کی حمایت، ڈیموکریٹس کی شکست اور ریپبلکنز کی فتح سے دنیا کو کسی وہم میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے دائیں بازو کے سیاست دان فلسطین کے نجات دہندہ ثابت نہیں ہوں گے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ٹرمپ ہی کا پہلا دور تھا، جس نے فلسطینیوں کو مکمل طور پر حقوق سے محروم کرنے کی راہ ہموار کی تھی۔ ٹرمپ ہی نے مقبوضہ بیت المقدس پر اسرائیل کو خودمختاری دے کر، غیر قانونی بستیوں کو جائز تسلیم کر کے، فلسطینیوں کے خلاف مالی جنگ چھیڑ کر اور انروا کو تباہ کرنے کی کوشش کرکے صہیونیت نوازی میں تاریخی پیش قدمی کی تھی۔ اگر ٹرمپ فلسطین میں اپنی پرانی تباہ کن پالیسیوں پر واپس آئے اور یقیناً وہ آئیں گے ، تو ایک اور تباہ کن بلکہ فیصلہ کن جنگ شروع ہو جائے گی۔

موجود ہ صورت حال کے تناظر میں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ فلسطین کے مسئلے نے امریکا میں مختلف قومیتوں اور رنگ و نسل کے افراد کو متحد کردیا ہے ، جس کا عملی مظاہرہ 5 نومبر کے انتخابات میں ڈیموکریٹس کی ہزیمت کی صورت میں کیا گیا، تاہم آیندہ اس کے اثرات و ثمرات کو برقرار رکھنا اور اس سے فائدہ اٹھانا کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان تمام امریکی گروپوں کے درمیان موجود یکجہتی کو فروغ دیا جائے جنہوں نے تازہ ترین انتخابات میں نسل کشی کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ فلسطین کے حامیوں کے ضروری ہے کہ وہ امریکی حکومت کو اپنے ووٹوں کے ذریعے دباؤ میں رکھیں، تاکہ اوول آفس میں بیٹھنے والے کسی بھی صدر کو جنگ بندی اور آزاد فلسطین کی اہمیت اور رو گردانی کی صورت میں اقتدار سے بے دخل ہونے کا اندازہ رہے۔