اسرائیل کے جنگی جرائم اور اقوام متحدہ

134

اقوام متحدہ کی ایک خصوصی کمیٹی کی تیار کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کے جنگی حربے نسل کشی سے مطابقت رکھتے ہیں۔ فلسطینی مسلمانوں کے خلاف خوراک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ کمیٹی نے کہا کہ اسرائیل جان بوجھ کر فلسطینیوں کی زندگیوں کو جان لیوا خطرے کی طرف لے جا رہا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے اسرائیلی حکم پر غزہ میں فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کو جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ غزہ میں بڑے پیمانے پر جبری نقل مکانی کے شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ منظم اور اسرائیلی ریاستی پالیسی کا حصہ ہے۔ بفر زونز اور سیکیورٹی کو ریڈورز کے نام پر فلسطینیوں کو مستقل طور پر بے گھر رکھنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ ادھر اسرائیل نے ہیومن رائٹس کی رپورٹ کو مکمل طور پر غلط اور حقیقت سے دور قرار دیا جب کہ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا کہ اقوام متحدہ کی کمیٹی کا اسرائیل پر فلسطینیوں کی نسل کشی کا الزام بے بنیاد ہے۔ دوسری جانب گزشتہ 24 گھنٹوں میں غزہ پر اسرائیلی بمباری میں کم از کم 24 افراد شہید، 60 سے زائد زخمی ہو گئے۔ وزارت صحت کے مطابق 7 اکتوبر 2023 ء سے جاری غزہ جنگ میں اب تک 43 ہزار 436 فلسطینی شہید، 1 لاکھ 3 ہزار 370 زخمی ہو چکے۔ اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی کی رپورٹ کا جہاں تک تعلق ہے یہ اب کوئی راز نہیں رہا کہ اسرائیل غزہ کے مسلمانوں کے خلاف گزشتہ ایک سال ایک ماہ اور ایک ہفتہ سے زائد عرصہ سے جاری اس یکطرفہ جارحیت میں کھلم کھلا جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے وہ ان تمام جنگی ضابطوں کی بے دھڑک خلاف ورزی کر رہا ہے جن کی عموماً مہذب دنیا سے جنگ کے دنوں میں بھی پابندی کی توقع کی جاتی ہے اسرائیل نے اس عرصہ میں جن چوالیس ہزار لوگوں کو شہید کیا ہے وہ سب سویلین ہیں اور ان میں سے بھی ستر فیصد بچے اور خواتین ہیں، جن کو نشانہ بنانے کی کسی بھی جنگی ضابطے میں اجازت نہیں اس عرصہ میں اسرائیل نے غزہ کو جس طرح ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کیا ہے وہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ وہ شہری آبادی کے خلاف جنگی کارروائیوں سے گریز کے مسلمہ بین الاقوامی اصولوں کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ اس پر بس نہیں اسرائیل کی جارحیت سے ہسپتال محفوظ ہیں نہ ایمبولینس گاڑیاں، عبادت گاہیں اور نہ تعلیم گاہیں حتیٰ کہ پناہ گزیں کیمپوں میں پڑے زخموں سے کراہتے اور بھوک سے بلبلاتے مہاجر بچے، بوڑھے اور عورتیں تک صیہونی ریاست کی دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں مگر اس سے بھی بڑی تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی اس کا ہاتھ روکنے والا نہیں، اقوام متحدہ کی زیر بحث رپورٹ سے متعلق جہاں تک اسرائیل کے تردیدی بیان کا تعلق ہے تو یہ طے شدہ امر ہے کہ مجرم سے اس کے علاوہ کوئی دوسری توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ اپنے جرم سے انکار اور خود کو معصوم قرار دے یہی حال اسرائیل کے سرپرست امریکہ کا ہے جس کے محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے اقوام متحدہ کی کمیٹی کی رپورٹ میں اسرائیل پر فلسطینیوں کی نسل کشی کے الزام کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ امریکی ترجمان بھی اس کے علاوہ کوئی دوسرا بیان نہیں دے سکتا کیونکہ امریکہ نے تو ہر طرح کے جرائم کے باوجود اسرائیل کی سرپرستی اور پشتی بانی کی قسم کھا رکھی ہے وہ اگر کسی وقت انسانی حقوق وغیرہ کی بات کرتا ہے تو یہ محض نمائشی بیان اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا ورنہ ہر صاحب بصیرت پر یہ حقیقت واضح ہے کہ امریکہ خود دنیا کی ہر نا انصافی اور ظلم کا سرپرست اور ذمہ دار ہے اس نے کسی معقول جواز کے بغیر افغانستان اور عراق کو جس طرح جارحیت کا نشانہ بنایا اور جو جو ظلم وہاں ڈھایا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اگر ان حقائق سے آگاہی کے باوجود کوئی امریکہ سے تہذیب و شائستگی اور عدل و انصاف کے اصولوں کی پاسداری کی توقع رکھتا ہے تو اسے کم سے کم لفظوں میں بھی احمق ہی قرار دیا جائے گا، اس لیے اسرائیل اور امریکہ کے اپنے جرائم سے انکار پر توجہ دینے کے بجائے اصل سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ یا اس جیسے دوسرے بین الاقوامی اداروں کا کام کیا جارح قوتوں کی جانب سے جاری مظالم، نسل کشی کے اقدامات اور انسانی حقوق وغیرہ کی خلاف ورزیوں کے بارے میں محض رپورٹ جاری کر دینا ہی ہے، کیا ان جرائم کی روک تھام کے لیے کوئی ٹھوس عملی اقدام اس کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں؟ یا کیا یہ ادارے محض کمزور ممالک کو دبانے کے لیے طاقتور ملکوں کے آلہ کار کا کردار ادا کرنے پر ہی مطمئن ہیں یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا ایران، افغانستان، پاکستان یا ان ہی کی طرح کا کوئی کمزور یا مسلمان ملک ایسے جنگی جرائم یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہوتا، تب بھی اقوام متحدہ محض اسی طرح کی رپورٹیں جاری کر کے خاموشی اختیار کر لیتا یا اس سے بھی کہیں کم تر سطح ان خلاف ورزیوں پر اب تک ان پر طرح طرح کی اقتصادی، سیاسی، سفارتی اور تجارتی پابندیوں کے ذریعے ان کے لیے جینا محال کر دیا گیا ہوتا…؟؟؟