ہم صبح 9:10 تک جامعہ پنجاب پہنچ گئے تھے۔وہاں ابھی اسٹالز اور ساؤنڈ سسٹم سیٹ ہو رہا تھا ۔اور باقی بھی تیاریاں جاری تھیں ۔10:30 تک افراد آنے لگے اور پھر آفیشلی پروگرام کا آغاز مقررہ وقت پر ہی کرلیا گیا تھا ۔سب سے پہلے تلاوت ،پھر فلسطین پر ویڈیو چلائی گئی اس کے ساتھ ہی افراد کو تاکید کی کہ ان کی کرسیوں پر رکھے بیگز میں فلسطینی رومال ہیں وہ اس کو پہن لیں۔اس کے بعد ناظمہ اعلی کا خطاب ہوا۔اور ساتھ ہی پروگرام کا آغاز کر دیا گیا۔موڈریٹر کا انداز بہت بہترین تھا وہ بہت اچھے طریقے سے سوالات کو لے کر چلے۔اور پینلسٹس نے بھی اپنے جوابات کے ساتھ بہترین انصاف کیا۔ پہلے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس کو ہم چوتھا صنعتی انقلاب کہہ سکتے ہیں اور یہ دور بہت بدل گیا ہے جہاں اساتذہ (x,y) جبکہ طالب علم (Gen z,alpha ) کے ہیں. پہلے ٹیچرز کا رول مینٹور کا ہوتا تھا اور اب facilitator کا ہے یعنی طالب علم تک دنیا بھر کے مواد تک رسائی اساتذہ کے مرہون منت نہیں ہیں۔پھر اس کے بعد نصاب اور اساتذہ کے حوالے سے بات ہوئی کہ سب سے بڑا چیلنج اس وقت ٹیچرز اور نصاب کے حوالے سے ہے۔شاہد وارثی صاحب نے طالبات کو اسلام کی بھرپور تاریخ کی طرف نظر دوڑانے کے لیے چند مثالیں دیں جن میں آکسفورڈ سے 237 سال پہلے ایک یونیورسٹی جو مراکش میں بنائی گئی تھی وہ لڑکی فاطمہ نے بنائی تھی اور اس کو گنیز ایوارڈ کا اعزاز بھی حاصل ہے جو آج تک مراکش میں قائم ہے۔ اس کے بعد انہوں نے نظامیہ جیسے بہترین ادارے جو گیارویں صدی میں قائم کی گئی اور اس میں بہترین استاد امام غزالی کی مثال دی اور یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ دینی تعلیم کو بنیادی مواد رکھا جانا چاہیے انہوں نے کہا کہ ایک دور تھا کہ ہم مغرب کے نظریات سے متاثر نہیں تھے بلکہ دنیا ہمارے نظریات سے متاثر تھی۔اس کے بعد آگے نصاب کی تبدیلی اور استاد کی تربیت اور نظریہ اور نظام تعلیم کا تعلق پر سید وقاص جعفری صاحب سے پوچھا گیا انہوں نے اپنے جواب میں یہ بہترین مثالوں سے سمجھانے کی بھرپور کوشش کی کہ کس طریقے سے نظریے کا تعلیم سے اہم تعلق ہے۔اگلے سوال کے لیے ماڈریٹر صاحب ڈاکٹر شعیب ظفر ملک صاحب کی طرف بڑھے اور ان سے پاکستان اور سویڈن کی تعلیم کا منفرد انداز جاننے کی کوشش کی ساتھ ہی اسلامی نظام تعلیم اور سیکولر نظام تعلیم کے بابت پوچھا گیا۔اس پر انہوں نے بہت بہترین انداز سے فیکٹس اینڈ فگرز کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے سوال کا جواب دیا۔انہوں نے مثال دی کہ اسلامی نظام تعلیم ایک organic hole ہے جس طرح انسانی جسم کے ساتھ ہم کسی جانور کے پاؤں لگا دیں تو یہ ممکن نہیں کیوں کہ انسان کے ہاتھ بھی انسان کے ہیں، انسان کا دماغ دل بھی انسان کا ہے یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک نظام تعلیم کا دل جو ویلیوز دے رہا ہے جو اس کی سوچنے سمجھنے کا اور زندگی کے مقاصد کا تعین کر رہا ہے وہ مغربی ذریعے سے لیا جائے اور صرف کسی ایک مضمون کے شامل کرنے سے ہم اس کو اسلامی نظام تعلیم کہہ دیں۔ وہ تعلیم جو ہمارے اداروں میں موجود ہے اس کے لیے کہ ہمیں بالکل بنیاد سے کوئی نصاب بنانا ہوگا۔ نظام تعلیم کے اندر جو مختلف حصے ہیں ان میں نصاب، اساتذہ کی ٹریننگ، ماحول ،انتظامیہ کا رول، نتائج اور امتحانات کا طریقہ سب شامل ہیں۔ انہوں نے اپنے اس سوال کے جواب میں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اسلامی نظام تعلیم دراصل وہ ہوگا جو انسانوں کو خلافت منصبی کے لیے تیار کرے جو انسانوں کو یہ بتاۓ کہ زمین میں اللہ کے خلیفہ اور اس کے نظام کی بالادستی کیا ہے اس کی سیرت و کردار کی تعمیر کرے، اس کے ذریعے اللہ کی رضا کا حصول سمجھانے کی کوشش کرے جب کہ مغرب تو انسانی خواہشات کو مکمل کرتا ہے اور ایک وشیس سائیکل ہے اس پر انہوں نے اقبال کا ایک بہت بہترین شعر بھی کہا کہ ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام
واے تمنائے خام واے تمنائے خام۔
اس کے بعد مزید سوالات کا سلسلہ بڑھتا رہا۔جابز، لرننگ ،گریڈ، سی جی پی ، اٹینڈنس ،کیا تعلیم کے یہی مقاصد ہیں اس پر بات کی گئی۔ اور ساتھ ہی یہ کہ تعلیمی نظام کا مقصد افراد کو اس دوڑ میں لگا دینا کہ نوکری مِل جانے کی فکر تک محنت کی جائے اس کے بعد کی پریشانی نا ہو۔جس پر شاہد وارثی صاحب نے ایک حل پیش کیا کہ اگر ہم اسلامی جمہوری پاکستان میں یہ اندازہ لگا لیں کہ ہمیں کس قسم کے افراد کی تیاری کی ضرورت ہے تو یہ ایک بہت بہترین کوشش ہوگی جس کے لیے انہوں نے ساؤتھ کوریا کی مثال دی کہ وہ 1945 میں آزاد ہوا۔اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان 1947 میں قائد اعظم نے معاشی ترقی، صنعتی ترقی کی طرف جب زور دیا تو پاکستان 1960 میں اس کے لوگوں کی آمدن کوریا کے لوگوں سے زیادہ تھی لیکن 1960 سے 1990 کے درمیان ایسا معجزہ ہوا کہ کوریا کے حالات بدل گئے۔ وہاں کی 95 فیصد تک طلبہ تعلیمی اداروں میں جاتے ہیں جب کہ پاکستان میں صرف 10 فیصد طلبہ تھے اگر ہم پاکستان کو دفاعی، معاشی لحاظ سے مضبوط بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس دور کے چیلنجز کو حل کرنے کے لیے محنت کرنی ہوگی ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمیں کن افراد کی تیاری کی ضرورت ہے۔ اس مطابق افراد کو تیار کرنا، افراد کو مواقع فراہم کرنا سب سے پہلے ایک سٹرکچر تیار کرنے کی ضرورت ہے جہاں صرف گریڈز، جی پی اے، یا نوکری کی تلاش نا ہو بلکہ ان کی فیلڈز کا چناؤ دراصل ریاست کا کام ہوگا۔ ہاسٹل کے مسائل، ہراسمنٹ کا مسئلہ، فیسوں کا مسئلہ ان سب کے حوالے سے بھی باتیں ہوئیں۔ یہ پورا سیشن 1 گھنٹے تک چلا۔ اس کے بعد آڈینس کے سوالات کی جانب بڑھا گیا۔یہ سیشن تقریبا 25 منٹ تک چلا ،اس کے بعد جمیعت کی تعارفی ویڈیو چلائی گئی۔اور پھر معزز مہمانان گرامی میں شیلڈز تقسیم کی گئیں۔ بعد ازاں محترمہ قیمہ جماعت حمیرا طارق صاحبہ نے خطاب کیا۔انھوں نے آج کی نوجوان نسل کو امید تھمائی۔محترمہ قیمہ جماعت کے خطاب کے بعد قومی ترانہ چلا گیا اور دعا کے بعد ایجوکیشن سمیٹ کا سیشن 2 اپنے اختتام کو پہنچا۔
OOO