ہائے ری جمہوریت

178

چھبیسویں ترمیم کے دو ہفتے بعد جس تیز رفتاری کے ساتھ تاریخی قانون سازی کی گئی ہے اتنی جلدی تو مکئی کے بھٹے بھی نہیں بھنتے۔ حکومت، اسٹبلشمنٹ اور پارلیمنٹ کے اتحاد سے جو فیملی سسٹم تشکیل پایا ہے اس کے بعد پارلیمنٹ کا یہی کردار رہ گیا ہے۔ اسمبلیوں کو انگوٹھا چھاپ اسمبلیاں قراردیا جائے یا حکومت کو فارم 47 کے طعنوں سے رگیدا جائے فلم سنسر بورڈ سے منظور شدہ ہے اور قومی پرچم لہرانے سے لے کر ختم ہونے کے اعلان تک یہ فلم دیکھنی ہی پڑے گی۔ ووٹ کو عزت دو اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں کی لپ سروس اب داستانوں کی نقل ماری کے سوا کچھ نہیں۔ جمہوریت کے عشاق کے گھڑے ہوئے نعرے کھٹے میٹھے مراحل سے گزرتے ہوئے اب محض پیٹھ تھپکانے جوگے رہ گئے ہیں۔

تازہ قانون سازی کے بعد حکومت رونے اور ہنسنے کے مراحل سے گزر کر اب بشاشت اور پختگی کے اس درجے میں داخل ہوگئی ہے جب ہر سمت سے نغموں کی صدا آتی ہے۔ اب شہباز شریف بھی 2029 تک وزیراعظم رہیں گے، عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی بھی 2029 تک ہی انصاف کے گل بوٹوں میں رنگ بھرتے رہیں گے۔ کہاں وہ نادار، غم زدہ اور پریشان حال حکومت اور کہاں اب کونفیڈنٹ اور ریلکسڈ سچویشن سے لطف اندوز ہوتے حکمران۔ دیوالیہ پن کے مہیب خطرے کا خاتمہ، معیشت کے مثبت اشارے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ، چالیس فی صد کو چھوتی شرح مہنگائی کا 6.9 فی صد پر آجانا، خارجہ امور کی شگفتہ خاطری، انویسٹ منٹ کی خبریں، وزراء کرام کی کنٹرول باڈی لینگویج! کرن سے کرن نہ پھوٹے تو اور کیا ہو۔

اعلیٰ حضرت عزت مآب جنرل عاصم منیر سعودی عرب کے دورے پر ہیں۔ ایم بی ایس کے آستانے پر تمام تر قوت ایمانی سے جھکے ہوئے ان کے خم سرتسلیم پر کسی شاہکار مجسمے کا گمان ہوتا ہے۔ جنرل صاحب کے چہرے کے تبسم اور ایم بی ایس کے رخ زیبا کی رونق سے لگتا ہے پاکستان کی بدحالی، حکومت کی بدہضمی، آلام اور معاشی پیش بندیوں اور خطرات کے ذکر اذکار کے بجائے محبت کے بول ادا ہورہے ہیں۔ میاں صاحب بھی مریم بی بی کے ساتھ ذاتی کاموں کی تکمیل کے لیے امریکا اور پھر لندن کے سبزہ نورستہ کو دیکھنے کے لیے نکلے ہوئے ہیں۔ صدر زرداری سیاسی ولایت کے جس مقام پر فائز ہیں اسے اپنے پھیلے ہوئے کاروبار سے رونق بخشنے کے لیے دبئی یاترا پر ہیں۔ مولانا صاحب بھی اپنے چمکتے دمکتے اور مسکراتے چہرے کے ساتھ ریلکس کرنے، اپنے عقیدت مندوں سے ملنے اور فنڈ ریزنگ کے لیے لندن کے دورے پر ہیں۔ غرض ہر طرف استحکام ہی استحکام، موجاں ہی موجاں۔ نہ کوئی سازش نہ کوئی خطرہ۔

تیز رفتار قانون سازی کے ذریعے عدالت عظمیٰ کے محترم ججوں کی تعداد سترہ سے چونتیس اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی تعداد نو سے بارہ کرکے اگرچہ عدلیہ کے دودھ کا پانی کردیا گیا ہے لیکن ججوں کے ہاتھ میں تھمے ترازو کے پلڑوں میں نیم دراز ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ بھی کردیا گیا ہے۔ اب کسی عدالتی فیصلے کے ذریعے حکومت الٹنے اور نظام کے تلپٹ ہونے کا دور دور اندیشہ نہیں۔ اب عدالتیں ان لاکھوں مظلوموں کی داد رسی اور ان کے حق انصاف کو بوسیدگی سے بچانے کی استعداد کی حامل ہوگئی ہیں جو آئینی معاملات میں الجھی ہوئی عدالتوں کی طرف دیکھتے برسوں جیلوں میں گلتے سڑتے رہتے ہیں۔ امید ہے اس نئے نظام کے بعد ان عمر اندار ججوں کو بھی قرار آجائے گا۔ 12 جولائی کے فیصلے کے ذریعے جنہوں نے اپنے مخصوص اہداف کے حصول کے لیے ملک کو انتشار میں جھونک دیا تھا۔ چند گھنٹوں کی قانونی تبدیلیوں کے بعد اب محترم جج صاحبان کے لیے ممکن نہیں رہے گا کہ وہ ایک مخصوص جماعت کے حق میں یکطرفہ فیصلے جاری کریں یا کسی جمی جمائی سیاسی حکومت کو محض بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کی پاداش میں گھر بھیج دیں۔ اس نئے عدالتی نظام کے بعد نظام عدل وانصاف مہذب قرینوں میں ڈھل سکتا ہے اگر یہ دوسری انتہا کی طرف نہ چلا جائے۔ دل مضطر من مانیوں پر بضد نہ ہو۔ تب ہی نحیف ونزار چیک اینڈ بیلنس کی رادھا کی ہچکیوں کو قرار آسکتا ہے۔

تیز رفتار قانون سازی کا ما سٹر اسٹروک بغیر کسی ایکسٹینشن اور توسیع کے قانونی طور پر آرمی چیف کے تین کو پانچ کرنا ہے۔ یہی نہیں وزیراعظم شہباز شریف اگر چاہیں گے تو 2027 میں آرمی چیف کو مزید پانچ سال کے لیے ایکسٹینشن دے سکتے ہیں اور اللہ عمردراز کرے بات بنی رہے تو جنرل عاصم منیر کو 2032 میں 2037 تک ملک وقوم کی نگہبانی کی ذمہ داری تفویض کی جاسکتی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے پاس اب قانونی اور آئینی اختیار ہے کہ وہ اور جنرل عاصم منیر لمبی مدت تک اقتدار کے ایوانوں میں روم میٹ رہیں۔ آرمی چیف سمیت بحریہ اور فضائیہ کے سربراہان کی مدت ملازمت بھی پانچ سال کردی گئی ہے۔ جمہوریت کو فوج کی سپورٹ حاصل رہے اس سے بڑھ کر جمہوریت کے دوام کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت جس طرح زیر بحث رہتی تھی افواہوں کے طوفان اٹھتے تھے اب ایک طویل مدت تک ان طوفانوںکا خاتمہ کردیا گیا ہے۔

پھسڈی جمہوریت میں سے ڈکٹیٹر شپ کی ’’توسیعی محبت‘‘ درآمد کرتے ہوئے ہوئے خیال رکھا گیا ہے کہ جمہوریت کا احترام باقی رہے اور تمام فیصلے پارلیمنٹ میں ہوں اور اکثریت کے ساتھ ہوں۔ اس سے بہتر کیا ہوسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ استحکام در استحکام کے ان بھاری پتھروں کی یلغار کے بعد پورے ملک میں کہیں ہلکا سا رخنہ اور احتجاج بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ساتھ ساتھ دیگر جماعتوں نے بھی ان تبدیلیوں کا خندہ پیشانی سے ساتھ دیا ہے سوائے تحریک انصاف کے۔ تحریک انصاف کے لیے ان تبدیلیوں میں کیا ہے؟ خوشونت سنگھ سے کسی

نے پو چھا ’’یہ کیسری رنگ بھارتی جھنڈے میں ہندوئوں کی نمائندگی کرتا ہے، سبز رنگ مسلمانوں کی اور بقیہ دوسری اقلیتوں کی مگر سکھوں کے لیے جھنڈے میں کچھ بھی نہیں ہے‘‘ خوشونت سنگھ بولے ’’یہ جھنڈے کا ڈنڈا کس کے لیے ہے؟‘‘

ایک وقت تھا دنیا بھر میں جمہوریت کی اتنی مانگ تھی کہ اس کے بغیر ملکوں کی مانگ نہیں سنورتی تھی لیکن اب دنیا بھر میں جمہوریت زوال کا شکار ہے۔ ان جمہوری ممالک میں بھی جو جمہوریت کے چمپئن تھے اب جمہوریت اور جمہوری روایات سے فرار میں ہی عافیت سمجھی جارہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اب ان جمہوری ممالک میں جمہوریت کی جگہ ڈکٹیٹر شپ نے لے لی ہے۔ نہیں، ہرگز نہیں۔ پہلے کسی ملک میں جمہوریت کو ختم کرنا ہوتا تھا تو ملک میں مارشل لا لگا دیا جاتا تھا اور فوجی ڈکٹیٹر اقتدار پر قبضہ کر لیتا تھا اب ایسا نہیں ہوتا۔ اب جمہوری حکومت ڈرامائی انداز میں ختم نہیں کی جاتی بلکہ جمہوری لیڈر خود جمہوریت کو معطل کرتے ہیں۔ جمہوریت کے اندر ڈکٹیٹر شپ کے انداز اور طرزحکومت کو اس طرح گھسیڑ دیا جاتاہے کہ جمہوریت کا صرف نام باقی رہے۔ اب جمہوری ممالک میں جمہوری لیڈر بذریعہ جمہوریت اقتدار میں آتے ہیں لیکن اپنی حکومت کو مستحکم اور عرصہ اقتدار کو طویل کرنے کے لیے وہ ایسی قانون سازی کرتے ہیں کہ اپنے مخالفین پر کریک ڈائون کرسکیں۔ امریکا جیسے ملک میں بھی اب بذریعہ جمہوریت ٹرمپ جیسے شخص کو عظیم کامیابی نصیب ہوئی ہے جس کی پہچان جمہوریت اور جمہوری روایات نہیں بلکہ پاپو لرزم ہے۔ اپنے پچھلے دور میں ٹرمپ نے آتے ہی ہیلری کلنٹن پر کرپشن کے الزام لگائے انہیں عوام کی دشمن قرار دیا، میڈیا کا کریک ڈائون کیا، اس ایف بی چیف کو ڈس مس کردیا جو تحقیق کررہا تھا کہ ٹرمپ کی کامیابی روس کی مداخلت کی مرہون منت تو نہیں ہے، جلسوں میں سفید فاموں کی سپریمیسی کا نعرہ لگایا، عصبیت کو بڑھاوا دیا۔ اب جمہوریت کو ملٹری ڈکٹیٹر شپ کے ذریعے ختم کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ لیڈر ہی کافی ہیں جو جمہوریت کے ذریعے برسراقتدار آتے ہیں۔