بعض کوتاہ فہم، غالب مغربی تہذیب وثقافت سے مرعوب ہیں۔ ان کے خیال میں اسلامی جہاد صِرف انہی مواقع پر مشروع ہوتا ہے جب حملہ آور دشمن کے مقابلے میں دار الاسلام کے دفاع کی ضرورت پیش آجائے۔ بعض مفکرین روحِ جہاد، مغزِ جہاد اور حقیقتِ جہاد جیسے عنوانوں سے دن رات یہی ثابت کرنے میں جْٹے ہوئے ہیں۔ مغربی ممالک، امریکا اور یورپ چاہے کھلے عام مسلّمہ بین الاقوامی اصولوں کو پامال کریں، کسی بھی ملک کے خلاف یک طرفہ جنگ شروع کر دیں، اپنی بالادستی اور مفاد کے تحفظ کے لیے پورے خطوں کو عدمِ استحکام اور بحرانی حالات کی دلدل میں ڈال دیں، ان کے نیازمند مفکروں کی زبان سے ان زیادتیوں کی مذمت کا ایک لفظ نہ نکلے گا اور نہ اس موضوع پر ان کی کوئی تحریر سامنے آئے گی۔ ان کا سارا زور صرف اس امر پر صرف ہوگا کہ مسلمان اقدامی جہاد سے توبہ کرلیں، باقی ساری دنیا اقدامی جنگ کرتی ہے تو کرے۔
مغربی استادوں کے مسلم شاگردوں نے جہاد کے سلسلے میں خامہ فرسائی کی ہے۔ انہوں نے کوشش کی ہے کہ جہاد کے احکام کی تاویل کرکے انہیں مغرب کے لیے قابل قبول بنا لیا جائے۔ زیادہ زور اس نکتے پر دیا ہے کہ جہاد ہمیشہ دفاعی ہوتا ہے، اقدامی نہیں ہوتا۔ اس جدید تصورِ جہاد کی صریحاً تردید کرنے والی قرآن وسنت کی نصوص کو نظر انداز کردیا گیا ہے اور اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کے جہاد کی ایسی کمزور تاویلیں پیش کی گئی ہیں کہ ایک بچہ بھی انہیں درست ما ننے سے انکار کر دے۔
لغوی تحقیق
اس سلسلے میں لمبی چوڑی بحث سے قبل، ایک اہم پہلو پر غور کرنا چاہیے۔ بالفرض کسی نے جہادِ اقدامی سے متعلق تمام صحیح حدیثوں کو (جو بلا مبالغہ سیکڑوں ہیں) جھوٹی کہہ کر رد کردیا۔ پھر قرآنِ کریم میں وارد جہاد سے متعلق تمام آیتوں کی یہ تاویل بھی کردی کہ ان سے مراد صرف دفاعی جہاد ہے، تب بھی ہم اس حقیقت کو کیسے فراموش کریں کہ مجاہدین کو غازی، اور ان کے اقدامات کو غزوے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اب غور کیجیے کہ کیا کسی لغت، ڈکشنری یا عہد جاہلیت کے شعر میںغازی اور غزوہ سے مراد دفاعی جہاد ہے؟ اس آیتِ کریمہ کا مفہوم کیا ہے؟: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کافروں کی سی باتیں نہ کرو جن کے عزیز واقارب اگر کبھی سفر پر جاتے ہیں یا غزوے میں شریک ہوتے ہیں (اور وہاں کسی حادثے سے دوچار ہو جاتے ہیں) تو وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مارے جاتے اور نہ قتل ہوتے‘‘۔ (آلِ عمران: 156)
یہاں قرآن بتا رہا ہے کہ اہلِ ایمان جنگ کے لیے باہر نکلے ہوئے تھے، اپنے گھروں اور بستیوں میں بیٹھ کر دفاع نہیں کر رہے تھے۔ اسی لیے تو منافقین نے کہا تھا کہ ’’لو کانوا عندنا‘‘ یعنی وہ یہیں گھروں میں بیٹھ رہتے تو بچ جاتے۔ ہم غزوہ یا جہادِ اقدامی کا صریح تذکرہ کرنے والی اس آیت کی کیا تفسیر کریں گے؟ پھر صحیح بخاری وصحیح مسلم اور دیگر جملہ کتبِ حدیث میں وارد غزوات سے متعلق حدیثوں کا مفہوم کیا ہوگا؟
اقدام اور دفاع
قرآن نے خود اقدامی ودفاعی جہاد کی تقسیم کی ہے۔ ارشادِ باری ہے: ’’وہ منافق کہ جب ان سے کہا گیا آئو اللہ کی راہ میں جنگ کرو یا کم از کم دفاع ہی کرو‘‘۔ (آلِ عمران: 167) اگر دفاع کرنا ہی کْل جہاد ہے تو یہاں دفاع کا الگ تذکرہ کیا معنی رکھتا ہے؟
علامہ ابن القیمؒ نے قیمتی بات کہی ہے کہ ’’جہادِ دفاع تو ہر ایک شخص کر سکتا ہے۔ صرف بزدل اور لائقِ مذمت شخص ہی شرعاً یا عقلاً اس سے گریز کرنا چاہے گا۔ رہا جہادِ طلب جو خالصتاً اللہ کی خاطر کیا جاتا ہے تو اسے اہلِ ایمان کے سرگرم گروہ اور سابقین وسادات ہی کرسکتے ہیں‘‘۔ (الفروسیہ، ابن القیم، تحقیق: زائد النشیری:ص 124)
ماضی میں مسلمان اس محرومی کا غم کھاتے تھے کہ ہمیں شرعی جہاد میں شرکت کا شرف نہیں ملا جسے سچے اہلِ ایمان کررہے تھے اور جسے اللہ کے رسولؐ، صحابہ کرامؓ اور ان کے متبعین نے کیا۔ مگر اللہ کے عفو وکرم کی امید بہر حال رہتی تھی کیونکہ اس نے ایک آخری گنجائش چھوڑ رکھی تھی جو اس محرومی میں سہارا اور مداوا بن جاتی تھی۔ وہ بات یہ تھی کہ مسلمان دل میں شہادت کی تمنا اور جہاد کا شوق رکھتے تھے اور ربِ کریم کے تعلق سے یہ حسنِ ظن رکھتے تھے کہ اس نیت اور شوق کی وجہ سے وہ نفاق کی موت سے محفوظ فرمائے گا اور اجرِ شہادت سے نوازے گا۔ صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہؓ سے یہ ارشادِ نبوی نقل ہوا ہے کہ ’’جو مر جائے اور اس نے جہاد نہ کیا اور نہ دل سے اس بارے میں گفتگو کی تو وہ نفاق کے ایک حصے پر مرا‘‘۔ (صحیح مسلم)