ہنر مند افرادی قوت

135

ہنر مند افرادی قوت اور جینئس لوگ کسی بھی ریاست کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، دنیا کے وہ تمام ممالک جنہوں نے آج کسی بھی حوالے سے اپنا مقام بنایا ہے تو اس کی اہم ترین وجہ اس کے ہنر مند نوجوان ہیں، انہوں نے تعلیم اور صلاحیت دونوں پر ہی توجہ دی اور اپنے نوجوانوں کو اپنے ملک کے اندر ہی پنپنے کے مواقع فراہم کیے۔ تاہم پاکستان کی ترقی سے زیادہ المیہ سمجھیں کہ یہاں کا ہنر مند نوجوان کو ملک سے باہر نکلنے کی جلدی ہوتی ہے جس کی بڑی وجہ ایک طرف ہماری ریاستی پالیسیاں ہیں تو دوسری طرف نوجوانوں میں یہ بڑھتا ہوا احساس کہ انہیں ان کی محنت کا مکمل اور مناسب معاوضہ نہیں ملتا جبکہ اس میں کوئی دو رائے بھی نہیں ہے کہ پاکستان میں واقعی محنت کا تسلی بخش معاوضہ نہیں ملتا اسی لیے ان کوشش ہوتی ہے وہ پاکستان سے باہر نکل جائیں۔ اچھی زندگی جینے کی خواہش رکھنا غلط نہیں اور اس کے لیے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرنا بھی جرم نہیں جبکہ میں ہجرت کو بھی غلط نہیں سمجھتا تاہم اگر سارے ہنر مند نوجوان باہر آ جائیں گے تو پیچھے کیا رہ جائے گا؟ خوش قسمتی یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی کا نصف سے زائد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، اس وقت ملک کے ہنر مند نوجوان ملک کی بہتری کے لیے مفید کردار ادا کرنے سے محروم ہیں، یعنی ملک کی افرادی قوت ملک کی ترقی میں کسی قسم کا کردار ادا نہیں کر رہی سوائے باہر جا کرترسیلات زر بھیجنے کے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان آج اس مقام پر کھڑا ہے کہ یہاں پر کوئی بھی ہنر مند بندہ اپنا کام کرنے یا اپنی توانائیاں اور اپنے ہنر سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا رہا۔

اس میں کوئی دورائے نہیں نوجوانوں کی مہارت اور قابلیت ان کی ذاتی ترقی اور مجموعی طور پر معاشرے کی ترقی کے لیے ناقابل یقین حد تک اہم ہے۔ جب نوجوان افراد صحیح مہارتوں سے آراستہ ہوتے ہیں، تو یہ مہارتیں انہیں جدید ملازمت کے بازار میں کامیاب ہونے اور اچھی ملازمت تلاش کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ نوجوانوں کو کاروباری بننے کی ترغیب دینا بھی نئے خیالات کو فروغ دیتا ہے اور معیشت کو ترقی دینے میں مدد کرتا ہے نوجوانوں کی صلاحیتوں میں سرمایہ کاری کا مطلب مستقبل میں سرمایہ کاری کرنا ہے۔ نوجوان افراد پائیدار ترقی کو آگے بڑھانے اور دنیا پر مثبت اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان مشکلات سے نمٹنا ضروری ہے جن کا سامنا نوجوانوں کو جاب مارکیٹ میں داخل ہونے پر کرنا پڑتا ہے اور ان لوگوں کے لیے مہارت کی خصوصی تربیت فراہم کرنا جو اسکول میں نہیں ہیں یا اس وقت ملازمت کرتے ہیں۔ یہ سب کے لیے یکساں مواقع پیدا کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کوئی پیچھے نہ رہے۔ بالآخر، نوجوانوں کو ہنر سے بااختیار بنانے سے انہیں افرادی قوت میں حصہ ڈالنے اور معاشرے کی ترقی میں حصہ لینے میں مدد ملتی ہے، چاہے وہ کہیں سے آئے ہوں یا ان کی موجودہ صورتحال کیا ہو، جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو ہنر مند بنائیں تاکہ ہمارے نوجوان بروقت اپنے قدموں پر کھڑے ہو سکیں۔

یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم آٹو موبائل، ویلڈر اور الیکٹریشن کی تعلیم کو ہی پیشہ ورانہ تعلیم سمجھتے تھے لیکن اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی کی جدت نے نئے شعبوں کو جنم دیا ہے جس سے صنعت میں ووکیشنل ایجوکیشن، پیشہ ورانہ و فنی تعلیم کی اہمیت بہت بڑھ گئی، یہی وجہ ہے کہ مختلف حکومتوں اور غیر سرکاری لوگوں نے ادارے بنانے شروع کیے، اس کے ساتھ ہی مختلف حکومتوں کی طرف سے نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے پروگرام کا آغاز کیا گیا، جس کی بدولت آج ووکیشنل ایجوکیشن / پیشہ ورانہ تعلیم بہت ہی تبدیل شدہ شکل اختیار کر چکی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ حکومت کی طرف سے نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے لیے بہت سے مفت کورسز کا سلسلہ شروع کیا گیا یہ فنی تعلیم ہمیں پرچون (ریٹیل)، سیاحت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، کاسمیٹک، روایتی دستکاری اور گھریلو صنعت کاری غرض کہ ہر شعبہ زندگی میں نظر آتی ہے۔ اس سے ہمیں فنی تعلیم کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہو جانا چاہیے، اب جب کہ اس وقت گلف میں مختلف قسم کی نمائشیں چل رہی ہیں جن کے اندر حکومت پاکستان کے نمائندے ہوں وزیر سفیر یا کوئی بھی سرمایہ دار ہے وہ وہاں پر یہ معاہدے کر رہا ہے کہ ہم پاکستان کے جو ہنر مند نوجوان ہیں ان ممالک میں ملازمت کرنے کے لیے بھجوائیں گے۔ یعنی آپ اپنی ہنر مند افرادی قوت سے خود فائدہ اٹھانے کے بجائے دوسرے ملکوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع دے رہے ہیں جو کہ پاکستان اور پاکستانی نوجوانوں کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے۔ افرادی قوت کو بیرون ملک روانہ کرنے کے لیے جو ہماری منسٹریاں ہیں یہ کام ان کی چھتر چھایا میں ہو رہا ہے۔ موجودہ حکومت کو اس حوالے سے موثر قانون سازی کرنی چاہیے اور ہنر مند افرادی قوت کے لیے ملک کے اندر ایسے مواقع پیدا کیے جائیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے ملکی ترقی و خوشحالی میں اپنا کردار ادا کریں۔ فر کہندے ’’ملک وچ سیانا تے ہنر مند بندہ ہی نہی‘‘۔