پشاور پولیس لائنز دھماکہ: مرکزی سہولت کار پولیس کانسٹیبل گرفتار

121

پشاور: خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) اختر حیات گنڈا پور نے منگل کو تصدیق کی کہ جنوری 2023 میں پشاور کے پولیس لائنز میں ہونے والے خودکش حملے کے سلسلے میں ایک پولیس کانسٹیبل کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس حملے میں کم از کم 86 پولیس اہلکار جان کی بازی ہار گئے تھے۔

گرفتار شخص کی شناخت محمد ولی کے نام سے ہوئی ہے، جو پولیس لائنز دھماکے میں مرکزی سہولت کار بتایا جا رہا ہے۔ آئی جی پولیس گنڈا پور نے پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ محمد ولی کو چند روز قبل جمیل چوک سے گرفتار کیا گیا، جس کے قبضے سے دو خودکش جیکٹس برآمد ہوئیں۔

آئی جی کے مطابق، تفتیش کے دوران انکشاف ہوا کہ ملزم پولیس فورس میں کانسٹیبل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ مزید برآں، انہوں نے بتایا کہ محمد ولی نے کالعدم شدت پسند تنظیم جماعت الاحرار کے ارکان اور اس کے ترجمان محمد خراسانی سے ملاقاتیں کیں ہیں ۔

تفتیش کے دوران محمد ولی نے انکشاف کیا کہ 2021 میں “جنید” نامی شخص نے فیس بک پر اس سے رابطہ کیا، جو کالعدم جماعت الاحرار کا بھرتی کارندہ تھا۔ جنید افغانستان میں مقیم تھا اور اس نے محمد ولی کو افغانستان بلایا ۔ 2021 میں محمد ولی چھٹی لے کر چمن بارڈر کے ذریعے جلال آباد پہنچا جہاں اس نے جنید سے ملاقات کی تھی ۔

افغانستان میں محمد ولی کو جنید نے کنڑ کے شنکر اور چکناور مراکز میں جماعت الاحرار کے دو اعلیٰ کمانڈروں، صلاح الدین اور مکررم خراسانی، سے ملوایا۔ ملاقات کے بعد محمد ولی نے جماعت الاحرار میں شمولیت اختیار کر لی اور اس کے بدلے میں اسے 20 ہزار روپے دیے گئے۔ پاکستان واپسی پر محمد ولی کو افغان فورسز نے گرفتار کر لیا تھا، لیکن جماعت الاحرار کے مداخلت کے بعد اسے رہا کر دیا گیا۔ 2023 میں اس نے دوبارہ پشاور پولیس لائنز میں ڈیوٹی شروع کر دی۔

محمد ولی نے تفتیش کے دوران بتایا کہ جنید نے اسے “کمانڈر خالد خراسانی کی شہادت” کا بدلہ لینے کی ہدایت دی تھی۔ جنوری 2023 میں محمد ولی نے پولیس لائنز کی تصاویر اور نقشہ جنید کو ٹیلی گرام کے ذریعے بھیجا۔

20 جنوری 2023 کو محمد ولی نے ایک افغان خودکش بمبار قاری کو چارسدہ مسجد سے پولیس لائنز مسجد پہنچایا اور علاقے کی نگرانی کرائی۔ بعد ازاں محمد ولی نے بمبار کو رحمان بابا قبرستان لے جا کر پولیس یونیفارم اور خودکش جیکٹ فراہم کی تھی ۔

بمبار کو پولیس لائنز کے قریب چھوڑ دیا گیا، اور دھماکے کے بعد محمد ولی نے جنید کو پیغام بھیجا کہ حملہ کامیاب ہو گیا ہے۔ محمد ولی کو اس حملے میں معاونت کے عوض 2 لاکھ روپے دیے گئے، جو کہ غیر رسمی مالیاتی نظام (ہنڈی) کے ذریعے منتقل کیے گئے۔

مرکزی ملزم نے تفتیش میں متعدد دیگر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث ہونے کا اعتراف کیا، جن میں جنوری 2022 میں پشاور میں ایک مسیحی پادری کا قتل شامل ہے۔ 2023 اور 2024 میں پشاور کی ورسک روڈ پر مختلف آئی ای ڈی حملے اور دسمبر 2023 میں غلانی مارکیٹ میں ایک دستی بم حملہ بھی اس کے منصوبے کا حصہ تھا۔

فروری 2024 میں محمد ولی نے مبینہ طور پر لاہور میں جماعت الاحرار کے ایک رکن کو احمدی شہری کے قتل میں مدد فراہم کی، جبکہ مارچ 2024 میں اس نے فیصل بٹ کو پستول فراہم کیا جس نے دو پولیس اہلکاروں کو قتل کر دیا۔

مزید برآں، جون 2024 میں محمد ولی نے ایک خودکش بمبار لقمان کو لاہور میں حملے کے لیے بھیجا لیکن بمبار کو حملے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا۔

محمد ولی نے پشاور کے مختلف مقامات جیسے موٹروے چوک اور چمکنی میں دیگر خودکش جیکٹس چھپا رکھی تھیں اور ان تمام سرگرمیوں کے ثبوت جنید کو ویڈیو کے ذریعے فراہم کیے۔ جماعت الاحرار کے لیے خدمات کے بدلے میں اسے ماہانہ 40,000 سے 50,000 روپے تنخواہ ملتی تھی جو کہ غیر رسمی ذرائع (ہنڈی) سے بھیجی جاتی تھی۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2023 میں پشاور کی مسجد میں ہونے والے خودکش حملے میں 100 سے زائد افراد جاں بحق اور 200 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔