پاکستان میں ایک کھیل برس ہا برس سے چل رہا ہے کہ جو حکومت ہوتا ہے وہ اپوزیشن کو اپنی ناکامیوں کا ذمے دار قرار دیتا ہے، اور اپوزیشن تو کہتی ہی یہ ہے کہ ساری خرابی حکومت میں ہے اسے ہٹا دو ہم آئیں گے تو ایسا کردیں گے ویسا کردیں گے، لیکن جب وہ اقتدار میں آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو کام کرنا چاہتے ہیں اپوزیشن نہیں کرنے دے رہی۔ یہی کچھ اس مرتبہ بھی ہورہا ہے، اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا کہنا ہے کہ حکومت کام کرنا چاہتی ہے، اپوزیشن کرنے نہیں دیتی۔ منڈی بہاء الدین میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایاز صادق نے کہا کہ 2018ء کے بعد پیدا ہونے والی مشکلات کم ہو رہی ہیں، پاکستان کے امریکا، روس، چین، سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے تعلقات بہت اچھے ہیں، حکومت آہستہ آہستہ بہتری کی طرف جا رہی ہے، افراطِ زر کم ہو رہا ہے، زرِمبادلہ اور برآمدات بڑھ رہے ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ سب سے مشکل کام میرا ہے اورسب سے میرے تعلقات بھی اچھے ہیں۔ وہ یقینا مشکل میں ہیں لیکن یہاں صرف حکومت کی ترجمانی کررہے تھے، وہ 2018 کے بعد پیدا ہونے والی خرابیوں اور مشکلات کے کم ہونے کا ذکر کررہے تھے لیکن ملک کی مشکلات تو سال بہ سال بڑھ رہی ہیں وہ یہ بھی تو بتادیتے کہ اس سے قبل کی مشکلات کیا تھیں اور وہ کیسے کم ہوں گی۔ اس سے پہلے بھی تو ان ہی کی حکومت تھی۔ یا ان کے اتحادیوں کی تھی اس وقت بھی کیا یہی اپوزیشن کام سے روک رہی تھی، دراصل پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ تو خود برسوں یہی کھیل عوام کے ساتھ کھیل چکے ہیں کہ ایک دوسرے پر الزامات لگاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم تو کام کرنا چاہتے ہیں اپوزیشن نہیں کرنے دیتی۔ یہاں تک کہ ایک دوسرے کو بھارت کا ایجنٹ اور ملک کے لیے سیکورٹی رسک قرار دیا کرتے تھے۔ لیکن جب اقتدار چھن گیا تو ایک دوسرے سے ہاتھ ملا لیے، اگرچہ دل اب بھی نہیں ملے ہیں، لیکن اقتدار کی مجبوری ہے، یہی حال ان سے قبل کے پی ٹی آئی والوں کا تھا، جو آج یہی آسرا قوم کو دے رہے ہیں کہ ہم آئیں گے تو یہ، وہ اور سب کردیں گے، لیکن کیسے! یہ بھی تو ساڑھے تین سال رہے اور بیس سال خرابیاں کرنے والوں کو ساتھ ملاکر رہے، وہ بھی یہی کہ رہے تھے کہ اپوزیشن نہیں کرنے دے رہی تھی یا ہمارے دور میں ملک ترقی کررہا تھا لیکن ان کی وجہ سے ترقی رک گئی۔ اب بھی یہی ہورہا ہے وزیر اعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈاپور نے صوابی جلسے میں اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان اسی مہینے فائنل کال دیں گے‘ کارکنان اس کے لیے تیاری شروع کردیں‘ اب ہم اپنے قائد کو رہا کروائے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ انہوں نے قوم کو حقیقی آزادی کی جانب چلنے اور قربانیوں کے لیے تیار کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے بھی کہا کہ صوابی جلسے میں ریفرنڈم ہوگیا ہے۔ اب عمران خان کی رہائی بہت قریب ہے۔ امریکا میں انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد کچھ لوگ اپنی پرانی ٹوئٹس ڈیلیٹ کر رہے ہیں لیکن میں ان کو کہنا چاہتا ہوں کہ ہم امریکا سے مدد کے طلب گار نہیں، تبدیلی پاکستان کے اندر سے ہی آئے گی۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو سہولتوں سے محروم رکھا گیا ہے لیکن انہوں نے کبھی بیمار ہونے کا شکوہ نہیں کیا۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی جان کو خطرے کا اظہار ہر وقت کیا جاتا ہے اور سہولتوں کے کیا کہنے سوائے وزارت عظمیٰ کے ہر سہولت موجود ہے۔ تبدیلی ملک کے اندر سے آنے کی بات بھی کی گئی اور تحریک انصاف کے صوابی جلسے میں امریکی جھنڈا بھی لہرا دیا گیا۔ صوابی کے جلسے میں پی ٹی آئی کارکن نے امریکی جھنڈا لہرانا شروع کیا تو قریب موجود دیگر کارکنان نے انہیں امریکی جھنڈا لہرانے سے منع کیا اور جھنڈا نیچے کرنے کے لیے آواز دی مگر پی ٹی آئی کارکن جھنڈا ہاتھ میں لیے کھڑا رہا اور لہراتا رہا۔ جلسہ گاہ میں شرکا نے جھنڈے کی طرف اشارے شروع کیے تو قریب موجود کارکنان نے ان سے امریکی جھنڈا کھینچ لیا۔ امریکی جھنڈا کھینچنے کی کوشش کے دوران دھکم پیل بھی ہوئی تاہم کارکن سے امریکی جھنڈا نیچے کروا دیا گیا۔ اس طرح امریکا تک پیغام بھی پہنچ گیا اور جھنڈا نیچے کرانے کا کریڈٹ بھی مل گیا۔
اسی کھیل کے حصے کے طور پر بیان بازیاں بھی ہیں، وزیراطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ احتجاج اور جلسوں کا مقصد اڈیالہ جیل کے قیدی کے لیے این آر او لینا ہے، ساتھ ہی صوابی جلسے میں پیسے دیکر لوگوں کو لانے اور سرکاری ملازمین کو لانے کا الزام لگایا، اور یہ کام مسلم لیگ اور پی پی دونوں نے بھی ہمیشہ کیا ہے یہ ان کے کھیل کا حصہ ہے، یہ سارے کام پی ٹی آئی سمیت ساری ہی حکمران پارٹیاں کرتی ہیں، لیکن اعتراض دوسرے پر کرتے ہیں۔ اور این آر او تو پی ہی، مسلم لیگ، ایم کیو ایم سب ہی لے چکے، اب پی ٹی آئی بھی لے سکتی ہے، کہتے تو یہی رہیں گے کہ جمہوریت کی فتح ہے۔
اگر ایک پارٹی کے بیانات پڑھیں تو لگتا ہے کہ حکومت کچھ کر ہی نہیں رہی اور حکومت کے بیانات سنیں تو لگتا ہے کہ وہ بے چاری تو ملک کو ترقی دیکر امریکا سے آگے لے جانا چاہتی تھی لیکن اپوزیشن کام میں رکاوٹ ڈال رہی ہے، اگر تھوڑا سا بھی غور کریں تو سامنے آجائے گا کہ ایسے بیانات کی بھی اقتدار کی طرح باریاں لگتی ہیں، ورنہ اصل میں تو سب ایک ہیں۔ ہر غلط کام میں یہ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔