چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری سے حکومتی ایوانوں میں کئی دنوں تک خوشیوں کے شادیانے بجتے رہے پھر یہ خوشی مزید اس وقت اور بڑھ گئی جب پارلیمانی کمیٹی نے جسٹس یحییٰ آفریدی کے چیف جسٹس بنانے کا فیصلہ کیا۔ پارلیمانی کمیٹی میں پیپلز پارٹی کے ارکان نے بھی یحییٰ آفریدی کے حق میں اپنی رائے دی، وہ تو بہرحال دینا ہی تھی۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک ضمنی سوال میں اپنے لیے بھی اور اپنے پڑھنے والوں کے لیے بھی چھوڑے جارہا ہوں کہ اس پورے عمل میں پی پی پی نے ن لیگ کو استعمال کیا یا نواز لیگ نے پیپلز پارٹی کو استعمال کیا؟، اس لیے کہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ن لیگی صفوں میں جو اطمینان اور اعتماد نظر آرہا ہے وہ پی پی پی کی صفوں میں نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ بلاول زرداری کچھ ناراض نظر آتے ہیں اور وہ دبئی چلے گئے جہاں ان کے والد صاحب پیر میں فریکچر کی وجہ سے ایک ماہ کے لیے آرام کررہے ہیں۔ بلاول زرداری کا کہنا ہے کہ جوڈیشل کمیشن میں مساوی نمائندگی کا وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ معاہدہ یہ ہوا تھا کہ جوڈیشل کمیشن میں دونوں جماعتوں کو یکساں نمائندگی ملے گی یہ وعدہ پورا نہ کرنے پر احتجاجاً گزشتہ ہفتے جوڈیشل کمیشن سے اپنا نام واپس لے لیا۔ حکومت کی اہم اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے مسلم لیگ ن کی جانب سے اہم معاملات پر وعدہ خلافی اور مشاورت سے راہ فرار اختیار کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اپنی ناراضی کا اظہار کردیا ان کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل اور وزیر قانون بھی حکومت کے نمائندے ہیں۔ حکومت کے ساتھ پی پی پی کے مستقبل کا فیصلہ اب پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کرے گی۔ وطن واپسی پر کمیٹی کا اجلاس ہوگا جس میں اہم فیصلے ہوں گے۔
آئینی بنچ کے قیام کے لیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہوا جس میں حکومت 7-5 سے جیت گئی چھبیسویں آئینی ترمیم کا حکومت کو یہ پہلا باقاعدہ فائدہ ہوا ہے جس میں وہ آئینی بینچ کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی پسند کا جج لانے میں کامیاب ہوگئی۔ تیرہ رکنی جوڈیشل کمیشن میں بلاول زرداری شریک نہیں ہوئے اس لیے بارہ شرکاء کے درمیان ووٹنگ ہوئی اس میں حکومت کو سات ووٹ ملے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس امین الدین کے خلاف ووٹ دیا۔ عام طور پر اصول تو یہ ہوتا ہے کہ جو فرد امیدوار ہو وہ اپنے آپ کو ووٹ نہیں دے سکتا جسٹس امین الدین اجلاس میں شریک تھے انہیں خود اپنے آپ کو ووٹ نہیں دینا چاہیے تھا پھر یہ جیت ایک ووٹ سے ہوتی اگر بلاول بھی شریک ہوتے اور وہ غصے میں سرکاری امیدوار کے خلاف ووٹ دیتے تو ٹائی پڑجاتی۔ بہر حال اس ترمیم نے ججوں کے درمیان خلیج کو بھرنے کے بجائے اس کو اور گہرا کردیا ہے۔ ویسے تو جسٹس یحییٰ آفریدی بڑے توازن کے ساتھ چل رہے ہیں انہوں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں اپنے دو سینئر ججوں کو شامل کرکے حکومت کے منہ کا مزا کرکرا کردیا تھا۔ پھر فل کورٹ اجلاس بلا کر اور اس میں کچھ ایسے فیصلے کرکے جو شاید حکومتی حلقوں میں پسندیدگی کی نظروں سے نہیں دیکھا گیا۔ اس میں عدالتوں پر مقدمات کے بوجھ کو کم کرنے کے سلسلے میں جسٹس منصور کی طرف سے جو تجاویز پیش کی گئیں تھیں ان سب کو من و عن منظور کرلیا گیا۔ پھر انہیں حکومت کو بھی خوش کرنا تھا اس لیے چھبیسویں آئینی ترمیم کے حوالے جماعت اسلامی نے جو پٹیشن داخل کی تھی اور دیگر لوگوں نے بھی اسی قسم کی پٹیشن داخل کی تھی جسٹس منصور نے چیف جسٹس کو خط لکھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس بلا یا جائے تاکہ ان تمام پٹیشنوں کے حوالے سے کچھ فیصلے کیے جائیں جب چیف جسٹس نے ان کے خط کا کوئی جواب نہیں دیا تو جسٹس منصور اور جسٹس منیب نے خود کمیٹی کا اجلاس کرلیا اور اس میں فیصلہ کیا کہ چھبیسویں ترمیم کے حوالے سے جو پٹیشنیں آئی ہیں اس کے لیے فل کورٹ اجلاس بلا لیا جائے لیکن چیف جسٹس نے فل کورٹ اجلاس نہیں بلایا، یقینا چیف جسٹس کے یہ دونوں فیصلے حکومت کو پسند آئے ہوں گے، لیکن ابھی آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
اسی دوران حکومت نے قومی اسمبلی میں کچھ قانون سازی کی ہے جس میں سب سے اہم آرمی چیف کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کردی گئی ہے اس کے علاوہ ججوں کی تعداد بڑھا کر 34 کردی گئی ہے۔ پھر ایک خبر یہ بھی ہے کہ ججوں کے ہائوس رینٹ میں اضافہ کردیا گیا ہے اس طرح ایک جج کی تنخواہ بیس لاکھ سے زائد ہوجاتی ہے اگر 34 ججوں کی تنخواہ 20 لاکھ کے حساب سے جمع کی جائے تو 6 کروڑ 40 لاکھ صرف عدالت عظمیٰ کے ججوں کی ماہانہ رقم بنتی ہے جبکہ ہائی کورٹس اور لوئر کورٹس کا معاملہ الگ ہے پھر یہ ان تنخواہوں کے علاوہ دیگر مراعات جو ہیں اس کی تفصیل تو عام لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہے۔
اسی حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجا نے کہا ہے کہ حکومت نے گزشتہ روز عدلیہ اور پوری قوم پر حملہ کیا ہے مقتدرہ کی خواہش پر جج لگانا ملک کو محکوم بنانے کے مترادف ہے۔ ہم ڈر گئے اور سہم گئے تو ملک میں تاریکی کا راج ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں حکومت نے جو قانون سازی کی ہے اس کے مطابق حکومت اب مقتدرہ کی خواہش پر جج لگائے گی یہ پاکستان کو محکوم بنانے کی سازش ہے۔ آزاد ذہن رہنے والوں کے لیے دروازے بند کردیے گئے ہیں۔
26 ویں ترمیم کے اس سارے شور شرابے میں سب کی اصل توجہ تو اس ترمیم کو منظور کرانے پر رہی لیکن سائیڈ بائی سائیڈ ایک اور کام بھی خاموشی سے ہوتا رہا کہ ن لیگ نے پیپلز پارٹی کے مقابلے میں اپنا پلڑا بھاری رکھا۔ ساری زندگی آصف زرداری نے وکٹ کے چاروں طرف کھیلا ہے سیاسی دائو پیچ کے ماہر نے اتحادی حکومت میں اپنے لیے تمام آئینی عہدے حاصل کیے اور ایک اچھی سودے بازی کی لیکن اس دفعہ وہ اسی سوچ میں گم جارہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا کہ لڑکھڑا گئے اور پیر میں فریکچر ہوگیا خیر وہ جلد ہی ان شاء اللہ ٹھیک ہوجائیں گے پھر سوچیں گے کہ اب کیا کرنا ہے۔
جہاں ترمیم کے حوالے سے حکومت کو خوش ہونے کا موقع ملا وہیں انہیں امریکا میں کملا ہیرس کے ہارنے کا غم بھی مل گیا وجہ اس کی یہ کہ پی ٹی آئی کے بعض رہنمائوں نے یہ بیانات دیے تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کامیاب ہوں گے تو عمران خان کی رہائی کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔ لیکن حکومتی ایوانوں میں کملا ہیرس کے جیتنے کا یقین تھا اس لیے ان کا خیال تھا کہ پی ٹی آئی والوں کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ حالانکہ خود عمران خان کا ایک بیان سامنے آیا کہ میری رہائی کا معاملہ پاکستان سے ہی حل ہوگا۔