امریکا سے وفا کے امیدوار

307

امریکا بہادر کی یہ خوبی ہے کہ اس سے دنیا کا ہر ملک ہر وقت امید لگائے بیٹھا رہتا ہے اور تیسری دنیا مسلم دنیا خصوصاً پاکستان کے سیاستدان بھی اور امریکی عوام کے تو کیا کہنے وہ امریکا ہی کو کل دنیا سمجھتے ہیں۔ باقی کو تیسری دنیا، اس لیے وہ جس دنیا میں رہتے ہیں وہ اور ہی ہوتی ہے لیکن دنیا کے آزاد خودمختار کہلائے جانے والے ممالک بھی امریکا سے ایسے آس لگائے بیٹھے ہوتے ہیں جیسے یہی سب کا مسئلہ حل کرے گا، مسائل تو کیا حل ہوں گے ان میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا سے آس لگانے والے جب اس کے پاس جاتے ہیں تو انہیں اپنی عرضداشت پیش کرنے کے بعد کچھ باتیں ماننے کی شرط پر کچھ فوائد مل جاتے ہیں، لیکن باتیں اور شرائط ماننے سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں وہ سائل کو مستقل اس کے در کا گدا بنا دیتے ہیں۔ حالیہ امریکی انتخابات کے بعد صرف تین ایسے تبصرے آئے ہیں جن پر امریکی انتظامیہ کو توجہ دینی چاہیے اور دنیا کو سوچنا چاہیے، ایک روس کا ہے جس کے ترجمان نے واضح طور کہا کہ صدر پیوٹن کا ٹرمپ کو مبارکباد دینے کا امکان نہیں، لیکن اگلے دن پیوٹن نے مبارکباد دیدی، بہر حال ترجمان نے کہا کہ ہم ٹرمپ کے اقدامات دیکھیں گے، وہ یوکرین جنگ کو ہوا دینے والوں میں سے ہیں، دوسرا حماس کا ہے جس نے کہا ہے کہ ٹرمپ بائیڈن والی غلطی نہ دہرائیں جس نے اسرائیل کی اندھی حمایت کی تھی وہ غزہ پر اپنی امریکی برادری کی آواز سنیں، حماس نے متنبہ کیا کہ مسئلے کے حل کی آڑ میں فلسطینی اپنے حقوق میں کمی برداشت نہیں کریں گے۔ اسی طرح ٹرمپ کے گزشتہ دور میں طالبان سے شکست اور وہاں سے افواج کے انخلا کے فیصلے کو یاد دلاتے ہوئے امارت اسلامی افغانستان کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے کہا کہ توقع ہے کہ نئی انتظامیہ حقیقت پسندانہ اقدامات کرے گی، اور تعلقات کے نئے باب کا آغاز ہوگا، ساتھ ہی توجہ دلائی ہے کہ ٹرمپ خطے (افغانستان) اور دنیا خصوصاً غزہ اور لبنان میں موجودہ جنگ کے خاتمے میں تعمیری کردار ادا کریں گے۔ ان تین بیانات کے سوا بیش تر سفارتی چاپلوسی کی زبان پر مشتمل بیانات ہیں البتہ ترکی نے بھی غزہ، فلسطین اور یوکرین جنگ کے خاتمے کا ذکر کیا ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی کا محور وہاں کے دو ہی ادارے ہیں، پینٹاگان اور دفتر خارجہ یہ دونوں ادارے بین الاقوامی حالات کے تناظر میں اپنے مفادات کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ خصوصاً اسرائیل کے حوالے سے پالیسی میں صدر یا پارٹی بدلنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، افغانستان جیسی مجبوری آجائے تو بڑا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح مسلم دنیا کو باجگزار بنانے کی پالیسی بھی مستقل رہتی ہے، جبکہ ایک ہی موضوع پر ملکوں کے حوالے سے پالیسی تبدیل ہوتی رہتی ہے، جیسے فوجی حکومت غلط ہے لیکن، مصر، میانمر وغیرہ میں غلط نہیں، دوسرے کے علاقے پر قبضہ غلط ہے لیکن فلسطین اور کشمیر پر پالیسی کچھ اور ہے۔ آزادی اظہار اس وقت تک حق ہے جب تک اسلام، مسلمانوں، قرآن اور پیغمبروں کی شان میں گستاخی ہو، لیکن صہیونیوں کے جبر اور مظالم پر تنقید یہودیت کے خلاف بات کرنا قرار پاتا ہے، ہولو کاسٹ پر تنقید یا اس کے بارے میں جھوٹے پروپیگنڈے کا پردہ چاک کرنا جرم ہے، بلکہ اسرائیلی مظالم پر آواز اٹھانا بھی اینٹی سمٹ ازم ہے اس امریکی رویے کے باوجود اگر کوئی پاکستانی یہ سوچتا ہے کہ امریکا اس کے سیاسی لیڈر کو رہا کرائے گا تو یا تو وہ قومی وقار کا سودا کرنے کو تیار ہے یا عقل سے پیدل ہے کہ امریکا مفت میں کوئی کام نہیں کرتا، بھرپور معاوضہ اور خدمت لیتا ہے۔

پاکستان میں آج کل یہ ہوا چلی ہے کہ ٹرمپ آگیا خان بھی آئے گا، اس کے صحیح ہونے اور غلط ہونے ہر دو صورت میں پاکستان کا نقصان ہے، اگر ٹرمپ کے آنے سے عمران خان رہا ہوتے ہیں تو پاکستان کی کیا اوقات رہ جاتی ہے، پی ٹی آئی کے ایبسلوٹلی ناٹ کی کیا حیثیت ہوگی اور رجیم چینج میں امریکی سازش اور سائفر وغیرہ کی کیا حیثیت ہوگی۔ اور اگر ایسا نہیں ہوا تو،

جدوں آئے گا ساڈا ٹرمپ
کرے گا خان اڈالہ توں جمپ

گانے والوں کا کیا ہوگا، وہ اسے کیسے دیکھیں گے کہ امریکا کو ایبسلوٹلی ناٹ کہنے والا اسی کی آس میں ہے، اس کو محض پروپیگنڈا سمجھا جاسکتا تھا لیکن سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی کے مبارکباد کے بیان اور زلفی بخاری کے بیان نے اسے محض پروپیگنڈا سمجھنے والوں کی غلط فہمی دور کر دی، زلفی بخاری نے کہا کہ ٹرمپ کی ٹیم، بیٹی اور داماد سے ملاقات کروں گا، ٹرمپ اور داماد سے میرے تعلقات ہیں۔ دوسرا زیادہ مضبوط ثبوت ڈاکٹر عارف علوی کا مبارکباد کا پیغام ہے، جس میں سابق صدر نے امیدیں باندھنے اور اپنے مقصد کی خاطر امریکی صدر کو سب کچھ قرار دینے کی کوشش کی ہے انہوں نے ٹرمپ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ آپ کی جیت سے موجودہ اور مستقبل کے آمروں پر کپکپی طاری ہے، یہ بلاول کے الفاظ کو دوسرے الفاظ میں ادا کیا گیا ہے، جس کا بہت مذاق بنایا گیا تھا، لیکن علوی صاحب نے اردو میں غلطی نہیں کی ورنہ کہنا وہ بھی یہی چاہ رہے تھے کہ ’’کانپیں ٹانگ رہی ہیں‘‘ اس پر بے ساختہ یاد آجانا ہے کہ ہم کوئی غلام ہیں!! ارے جو حکمران غلام ابن غلام ہیں انہوں نے بھی اس طرح مبارکباد نہیں دی۔ اس پر طرہ یہ کہ سند بھی دیدی کہ جناب جو بھی کہتے ہیں وہی کرتے بھی ہیں۔ گویا

ہم کو اُن سے ہے وفا کی امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

سابق صدر کو اس طرح بیان نہیں دینا چاہیے تھا، یہ عام پاکستانی رہنما کے لیے بھی مناسب نہیں تو سابق صدر کے کے شایان شان کیسے ہوسکتا ہے۔

پوری امریکی انتخابی مہم کے دوران یہ چٹکلہ چھوڑا جاتا رہا کہ ٹرمپ آئے گا تو خان بھی آئے گا دونوں کا اقتدار میں آنا، نکالا جانا اور مقبولیت وغیرہ کے علاوہ ذاتی زندگی کی مماثلت کا بھی بڑا چرچا ہے، جیسے تیسری بیوی کا دوسری بار خاتون اول بننا، لہٰذا اب تو پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوگا وغیرہ۔

عام طور پر دنیا بھر میں انتخابی مہم اور اقدامات میں فرق ہوتا ہے اور امریکی انتخابات میں بھی ایسا ہوتا ہے لیکن امریکی سیاستدان اور رہنما نہایت ہوشیاری سے بیان دیتے ہیں کہ اپنے ووٹرز کی پکڑ میں نہ آسکیں۔ اس لیے دنیا بھر کے بارے میں جو کچھ کہا ووٹر اس کا حساب کبھی کبھی لیتا ہے لیکن امریکی شہریوں، ٹیکس نظام، ملازمتوں وغیرہ کے بارے میں جو وعدہ کیا اسے کسی نہ کسی درجے میں پورا کیا جاتا ہے، ورنہ جوابدہی مشکل ہوجاتی ہے، دنیا بھر کی مختلف حکومتوں کی نظریں انتخاب اور نتائج پر تھیں اور اب اقدامات پر ہوں گی لیکن پاکستان میں کچھ اور ہوتا ہے ہماری انتخابی مہم میں بھی نوحے ترقی استحکام تبدیلی وغیرہ کے لگتے ہیں لیکن ’’دن بدلے ہیں فقط وزیروں کے‘‘ تک بات رہتی ہے، حالیہ انتخابات کے بارے میں ایک تجزیہ تو امیدوں بھرا ہے جو خان کے پرستار کررہے ہیں اور دوسرا اس کے بالکل الٹ ہے کہ ٹرمپ کے جیتنے سے کچھ فرق نہیں پڑے گا! یہ تجزیہ کرنے والے کہتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ اور فلسطین سے متعلق امریکی پالیسی میں حکومتوں کی تبدیلی سے کوئی جوہری تبدیلی اور فرق آنے کا امکان نہیں ہوتا۔ مشرق وسطیٰ اور فلسطین کے تعلق سے امریکا کی یہ پالیسی آج یا کل کی نہیں ہے، یہ قریب قریب سو سال پرانی پالیسی ہے۔ ویسے تو امریکا کی پالیسی ہمیشہ سے ہر جگہ تسلط کی پالیسی رہی ہے، جبکہ فلسطین سے متعلق امریکا کی پالیسی اوّل روز سے اسرائیل کی سرپرستی اور اسے مضبوط کرنے کی رہی ہے۔ (جاری ہے )