موبائل کی گھنٹی بجی کان سے لگایا تو اسلام آباد سے ایک دوست کہہ رہے تھے ’’آپ ابھی تک موسم سرما کی پہلی بارش کے انتظار میں ہیں اور یہاں دیکھیے 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد نئے قوانین کی شکل میں 27 ویں آئینی ترمیم کی بارش ہوگئی ہے۔ کمال یہ ہے کہ نہ بادل اُمڈے نہ گھٹا چھائی لیکن ہر طرف جل تھل ہوگئی‘‘۔ بات تو ہمارے دوست کی درست ہے یہ قانون سازی اتنی تیز رفتاری سے ہوئی ہے کہ حضرت مولانا فضل الرحمن بھی حیران رہ گئے ہیں۔ اس قانون سازی میں سب سے اہم قانون یہ ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کردی گئی ہے، یعنی موجودہ آرمی چیف تین سال بعد نہیں پانچ سال بعد ریٹائر ہوں گے۔ پانچ سال کے بعد ان کے حسن کارکردگی کی بنیاد پر مزید پانچ سال کی ایکسٹینشن دی جاسکتی ہے۔ شاید اسی اندازے کی بنیاد پر کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ جنرل عاصم منیر تاحیات آرمی چیف رہیں گے۔ تاحیات آرمی چیف ہونا بہت بڑا اعزاز ہے جو جنرل عاصم منیر کو میسر آئے گا۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے قانون کی بڑے پیمانے پر مخالفت بھی ہورہی ہے۔ مخالفت وہ لوگ کررہے ہیں جو آداب جہاں بانی اور رموز حکمرانی سے ناواقف ہیں اور جمہوریت کو اپنے تمام مسائل کے حل کے لیے امرت دھارا سمجھتے ہیں۔ پاکستان الحمدللہ ایک جمہوری ملک ہے اس پر بے شک قیامت گزر جائے، یہ ہمیشہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی رہے گا اور اس کی شناخت پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مولانا فضل الرحمن نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کو انتظامی معاملہ قرار دیتے ہوئے اپنے دامن کو تنقید سے بچالیا ہے۔
پارلیمنٹ نے ایک ہی ہلّے میں جو بہت سے قوانین منظور کیے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عدالت عظمیٰ کے ججوں کی تعداد سترہ سے بڑھا کر چونتیس کردی گئی ہے یعنی بہ یک جنبش قلم عدالت عظمیٰ کے منصفین کی تعداد ڈبل ہوگئی ہے۔ بالعموم ادارے اپنی استعدادِ کار میں اضافے کے لیے افرادی قوت بڑھانے کی استدعا کرتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ بھی ایک ادارہ ہے وہ اپنے مقدمات کے بوجھ کو نمٹانے کے لیے حکومت یا پارلیمنٹ سے ججوں کی تعداد بڑھانے کی درخواست کرسکتا تھا لیکن اس نے ایسی کوئی درخواست نہیں کی البتہ جو لوگ رموز مملکت سمجھتے ہیں انہیں اندازہ تھا کہ عدالت عظمیٰ بڑی مشکل میں ہے وہ ججوں کی اس قلیل تعداد میں چوبیس کروڑ عوام کے مقدمات نہیں نمٹا سکتا۔ چنانچہ انہوں نے ازراہ ہمدردی ازخود نوٹس لیتے ہوئے ججوں کی تعداد دوگنا کرنے کا قانون منظور کرالیا۔ لیکن تنقید کرنے والے بھلا کہاں بخشتے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ دنیا کے کسی ملک میں عدالت عظمیٰ کے ججوں کی تعداد اتنی نہیں ہے جتنی پاکستان میں کردی گئی ہے۔ امریکا ایک بڑا ملک ہے لیکن وہاں عدالت عظمیٰ میں صرف 9 جج تعینات ہیں اور یہ 9 جج پورے ملک کو انصاف فراہم کررہے ہیں۔ بھارت ہم سے چار گنا بڑا ملک ہے لیکن وہاں بھی عدالت عظمیٰ کے ججوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ اسی طرح دنیا کے ملکوں میں ججوں کی تنخواہیں اور دیگر مراعات اتنی نہیں ہیں جتنی پاکستان میں ہیں۔ ججوں کی تعداد دوگنا کرنا کا مطلب قومی خزانے پر اربوں کا اضافی بوجھ ڈالنا ہے جبکہ پاکستان کی اقتصادی حالت اتنی پتلی ہے کہ وہ ایک پیسے کا بھی اضافی بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔ اس قانون سازی پر سوائے اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے۔
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے!
26 ویں آئینی ترمیم کے اصل مسودے میں تو آئینی عدالت کی شق ہی شامل تھی۔ لیکن مولانا فضل الرحمن نے کاریگری دکھائی اور آئینی عدالت عدالت کو آئینی بنچ بنادیا۔ آئینی بنچ کی تجویز کو مان بھی لیا گیا اور پارلیمنٹ نے اس کی منظوری بھی دے دی۔ بنچ کے بارے میں وکیلوں کی رائے یہ ہے کہ بنچ جس عدالت کا ہو وہ اس عدالت کے چیف جسٹس کے ماتحت ہوتا ہے۔ انڈیپنڈنٹ نہیں ہوتا، اس میں شامل تمام ججوں کی حیثیت مساوی ہوتی ہے کوئی بڑا چھوٹا نہیں ہوتا۔ مثلاً اگر ہائیکورٹ کا بنچ ہے تو ہائیکورٹ کا چیف جسٹس اس کا سربراہ ہوگا، اسی طرح عدالت عظمیٰ کا بنچ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں کام کرے گا لیکن آئینی بنچ کی تشکیل میں اس اصول کو مد نظر نہیں رکھا گیا اور حکومت نے اپنے طور پر اسے آئینی عدالت فرض کرلیا ہے۔ چنانچہ جسٹس امین الدین کو اس کا سربراہ بنادیا گیا ہے اور وہ چیف جسٹس سے بھی اوپر سپر چیف جسٹس بن گئے ہیں۔ اس طرح دونوں چیف جسٹسوں کے درمیان ٹکرائو کی صورت پیدا ہوگئی ہے۔ اس پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا ردعمل بھی سامنے آگیا ہے۔
دوست کہتے ہیں کہ حکومت نے عدالتوں کو بے وقار تو کیا ہی ہے اب نجانے ان کے ساتھ اور کیا کھیل کھیلنا چاہتی ہے۔ ہمارے دوست نے حکمرانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ موجودہ عدالتی نظام کو ایک قانون کے ذریعے لپیٹ کر نیا عدالتی نظام قائم کردیں جو انہیں ان کی مرضی کا انصاف فراہم کرنے کا پابند ہو۔ رہے عوام تو انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے کہ حالات عوام کو انصاف فراہم کرنا خوب جانتے ہیں۔