علامہ اقبال کی شاعری اور خودی

184

اردو زبان بلا شبہ اپنے ادبی ورثے پر فخر کر سکتی ہے۔ ایک طرف نثر میں ادیب دوسری طرف شاعری کے گلستاں میں ہزاروں شاعروں کے گل دستہ ہائے رنگا رنگ سے اردو ادب ایک خزانے سے کم نہیں۔ مختلف زبانوں کے بیچ برصغیر میں بولنے جانے والی اردو زبان کی عمر زیادہ نہیں لیکن زبان و بیان لب و لہجے اور اپنے موضوعات کے اعتبار سے اردو ایک بڑی اور مضبوط زبان ہے۔ اردو شاعری کی پہچان اور امتیاز لاتعداد ممتاز شاعر ہیں لیکن اقبال کا نام زبان و بیان اور اظہار خیال میں جدا اور ممتاز ہے۔ بلاشبہ غالب اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ اردو کی پہچان غالب ہیں۔ غالب نے اردو شاعری کو نئے خیالوں کی رعنائی بھی دی لب و لہجے کی تازگی بھی۔ سادگی سے مدعا بیان کرنا غالب کا کمال ہے۔

موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

اقبال کے بارے میں ناصر کاظمی نے کہا تھا اقبال اردو شاعری کے دروازے پر دیو کی طرح کھڑا ہے کسی اور کو اندر داخل نہیں ہونے دیتا۔ علامہ اقبال نے اردو شاعری کے پرستاروں کو پہلے پہل چونکایا اور سننے والوں کو حیران کر دیا اور پھر ہندوستان کی دنیا میں فکر و آگہی کی وہ مشعلیں جلائیں کہ آگ ہی سی لگ گئی۔

موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے

ایک نو عمر لڑکے کا یہ شعر اور اس کا مضمون سن کر استاد دم بخود رہ گئے اس سے پہلے اردو شاعری ہجر و فراق اور گل و بلبل کا نام تھی۔

آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاوں ہائے دل
کیا غم ہے گر نہ لائی عروس بہار پھول
ہو جائیں گے الجھ کے گریباں کے تار پھول
شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلت چوں عمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

اقبال نے اردو شاعری کو نئے تصورات دیے۔ شاعری کو غم ذات سے ہٹا کر غم کائنات عطا کیا۔ اقبال نے عشق کو وہ نئے معنی دیے کہ عقل دم بخود رہ گئی۔ اقبال نے پہلی بار شاعری میں مسلمان کو نام لے کر مخاطب کیا اور اسے اسرار خداوندی کی بلند دنیا سے متعارف کرایا۔ اقبال نے خودی کی نئی اور پراسرار وسعتیں انسان کو اس کی اپنی ذات میں دکھائی۔ اقبال نے آسمانوں پر اڑنے والے پرندے شاہین کو نوجوانوں کے لیے ہمت و جرأت کا استعارہ بنا دیا۔ اقبال نے پہلے فارسی پھر اردو زبان میں شاعری سے اپنے ادبی ورثے کی حفاظت بھی کی اپنے پڑھنے والوں کا اس ورثے سے تعلق بھی بنایا۔

لفظ خودی کیا ہے۔ انسان کی اپنی ذات کے اندرون کی پہچان۔ انسانی نفس کی وہ بلندی جو انسان کو سر اٹھا کر اپنے پورے وجود کے ساتھ کھڑا کرتی ہے۔ خودی انسانی نفس کو وقار دیتی ہے اور سوال سے بچاتی ہے۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

کون سوچ سکتا ہے کہ وہ انسان جس کی خواہشات اسے سنبھلنے نہیں دیتیں وہ اتنا مضبوط ہو سکتا ہے کہ مانگنے سے پہلے اس کی مراد پوری کر دی جائے۔

اقبال جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے وہ برصغیر میں مسلمانوں کے سیاسی معاشی زوال کا وقت تھا۔ حالی نے مسلمانوں کو قدرے جگایا شاہنامہ اسلام لکھی اور ماضی کی دردناک یادوں سے نکل کر مستقبل کی طرف دکھانے کی کوشش کی۔۔۔ لیکن اقبال۔۔۔

اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کو پرجوش انداز سے مخاطب کیا انہیں اپنے وجود کا ادراک دیا مسلمانوں کو ان کا شاندار ماضی یاد دلایا اور مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اقبال نے بڑے فخر سے مسلمانوں کے لیے ہم کا لفظ استعمال کیا اور دنیا کو باور کرایا کہ ایک زمانے میں ہم ہی دنیا کے حکمران اور فاتح تھے۔

دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے

اقبال نے مسلمان کا لفظ شاعری میں ایک نئے انداز میں روشناس کیا۔ مسلمان کو مسلمان ہونے کا احساس دیا وہ مسلمان جس کا سرمایہ اللہ اور اس کے رسول سے عشق ہے۔ آج اگر مسلمان ذلت کا شکار ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان کے دل میں عشق کی چنگاری نہیں ہے بلکہ وہ ایک بجھی ہوئی راکھ کا ڈھیر ہے۔

بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

اقبال نے قرآن کی اصطلاح مومن استعمال کی اور مومن کو بلندی افکار اور عمل کا پیکر بنادیا۔ اقبال نے مومن کو قاری سے زیادہ سراپا قرآن بننے کی تلقین کی

یہ بات کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

اقبال کی شاعری محض تخیل، محض تصور اور محض جذبات کے جوشیلے مترنم اظہار کا نام نہیں۔ اقبال کی شاعری اپنے اندر ایک فلسفہ ہے ایک طریق حیات ہے۔ انسان کی پہچان ہے۔ اور انسان کی خودی کی دریافت ہے۔

اقبال نے شاعری کو خودی کے نئے لفظ سے متعارف کرایا۔ علم تصوف نے انسان کو اندرون ذات کی پنہائیوں کی سیر کرائی اقبال نے خودی کی صورت اسے اپنی ذات کے ساتھ کائنات کی بلندیوں کے مقابل کھڑا رہنے کا اعتماد دیا۔ انسان وہ تھا جسے ملائکہ نے سجدہ کیا تھا جس کے آگے کائنات کی قوتیں سرنگوں ہوئی تھیں انسان کے لیے اللہ نے زمین و آسمان مسخر کیے تھے۔ اس انسان کو یہ ادراک اقبال کی شاعری نے دوبارہ دیا۔ خودی انسانی نفس کو خواہشات کی غلامی سے نکال کرعزت و وقار سے جینا سکھاتی ہے۔ خودی انسان کو ربّ کی معرفت دیتی ہے۔ ربّ سے گفتگو سکھاتی ہے ربّ سے قریب کرتی ہے۔ قرآن کا مرد مومن ہی اقبال کا مرد مومن ہے جو دنیا کا اسیر نہیں ہوتا۔

تو رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلی بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
یہ انکار یہ تن آسانیاں قبول نہ کرنا انسان کو دنیا میں عزت دیتا ہے جو خودی کی عطا ہے۔
یہ موجِ نفس کیا ہے تلوار ہے
خودی کیا ہے تلوار کی دھار ہے
خودی کیا ہے رازِ درونِ حیات
خودی کیا ہے بیداریِ کائنات
اقبال کی خودی محض خیال نہیں ایک حقیقت ہے جس کی بنیاد عقیدہ توحید ہے کلمہ لا الہ ہے۔
خودی کا سرِ نہاں لا الہ اللہ
خودی ہے تیغ فَساں لا الہ اللہ

یہ وہ خودی ہے جوکلمہ لا الہ پڑھنے والوں کو دنیا کی لذتوں تن آسانیوں کا شکار اور خواہشات کا غلام نہیں ہونے دیتی بلکہ وہ مرد مومن جسے ربّ نے کلمہ توحید کو غالب کرنے کے لیے بھیجا تھا اسے اپنے مقصد میں کامیاب کرتی ہے۔ مزید وضاحت کے لیے علامہ اقبال کے تصورِ خودی پر اہل علم و دانش کی تحریروں سے اقتباس پیش خدمت ہے۔

تصورِ خودی کو اقبال کے فلسفہ ٔ حیات و کائنات میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اگر خودی کے تصور کو سمجھ لیا جائے تو اقبال کی شاعری کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے اقبالیات کے ہر نقاد نے خودی پر کسی نہ کسی شکل میں اظہار خیال کیا ہے۔ ڈاکٹر سعید عبد اللہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں۔ ’’خودی خود حیات کا دوسرا نام ہے۔ خودی عشق کے مترادف ہے۔ خودی ذوقِ تسخیر کا نام ہے۔ خودی سے مراد خود آگاہی ہے۔ خودی ذوقِ طلب ہے۔ خودی ایمان کے مترادف ہے۔ خودی سرچشمہ جدت و ندرت ہے۔ خودی یقین کی گہرائی ہے۔ خودی سوزِ حیات کا سرچشمہ ہے اور ذوقِ تخلیق کا ماخذ ہے‘‘۔

اقبال کے ہاں خودی سے مراد: خودی فارسی زبان کا لفظ ہے جو لغوی اعتبار سے درج ذیل معانی رکھتا ہے۔ ۱) انانیت، ۲) خود پرستی، ۳) خود مختاری، ۴) خود سری، ۵) خود رائی، ۶) خود غرضی، ۷) نخوت، تکبر، ۸) اپنے اوپر بھرپور بھروسا کرتے ہوئے سب کچھ حاصل کر لینا۔ ’’خودی‘‘ کا لفظ اقبال کے پیغا م یا فلسفہ حیات میں تکبر و غرور یا اردو فارسی کے مروجہ معنوں میں استعمال نہیں ہوا۔ خودی اقبال کے نزدیک نام ہے احساسِ غیرت مندی کا، جذبہ خوداری کا اپنی ذات و صفات کا پاس و احساس کا، اپنی انا کو جراحت و شکست سے محفوظ رکھنے کا، حرکت و توانائی کو زندگی کا ضامن سمجھنے کا، مظاہراتِ فطرت سے بر سر پیکار رہنے کا اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا۔ یوں سمجھ لیجیے کہ اقبال کے نقطہ نظر سے ’’خودی‘‘ زندگی کا آغاز، وسط اور انجام سبھی کچھ ہے فرد وملت کی ترقی و تنزل، خود ی کی ترقی و زوال پر منحصر ہے۔

خودی کا تحفظ، زندگی کا تحفظ اور خودی کا استحکام، زندگی کا استحکام ہے۔ ازل سے ابد تک خودی ہی کی کارفرمائی ہے۔ اس کی کامرانیاں اور کار کشائیاں بے شمار اور اس کی وسعتیں اور بلندیاں بے کنار ہیں۔ اقبال نے ان کا ذکر اپنے کلام میں جگہ جگہ نئے انداز میں کیا ہے۔

خودی کیا ہے رازِ دورنِ حیات
خودی کیا ہے بیداریِ کائنات
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے
زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی
ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی
ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر
ہوئی خاکِ آدم میں صورت پزیر
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے

کہیں یہ ظاہر کیا ہے کہ لاالہ الا اللہ کا اصل راز خودی ہے توحید، خودی کی تلوارکو آب دار بناتی ہے اور خودی، توحید کی محافظ ہے۔

خودی کا سرِ نہاں لاالہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لاالہ الا اللہ

کہیں یہ بتایا ہے کہ انسان کی ساری کامیابیوں کا انحصار خودی کی پرورش و تربیت پر ہے۔ قوت اور تربیت یافتہ خودی ہی کی بدولت انسان نے حق و باطل کی جنگ میں فتح پائی ہے۔ خودی زندہ اور پائندہ ہو تو فقر میں شہنشاہی کی شان پیدا ہو جاتی ہے۔ اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی تصرف میں آجاتا ہے۔

خودی ہو زندہ تو فقر بھی شہنشاہی
نہیں ہے سنجرل و طغرل سے کم شکوہِ فقیر
خودی ہو زندہ تو دریائے بیکراں پایاب
خودی ہو زندہ تو کہسار پر نیاں و حریر

ڈاکٹر افتخار صدیقی ’’فروغِ اقبال‘‘ میں اقبال کے نظریہ خودی کے بارے میں رقمطراز ہیں۔ ’’نظریہ خودی، جناب علامہ اقبال کی فکر کا موضوع بنا رہا۔ جس کے تمام پہلوئوں پر انہوں نے بڑی شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ اقبال نے ابتداء ہی میں اس بات کو واضح کر دیا کہ خودی سے ان کی مراد غرور و نخوت ہر گز نہیں بلکہ اس سے عرفان ِ نفس مراد ہے۔