امریکہ کے صدارتی انتخابات کی دوڑ میں ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس کو شکست دے دی ہے اور وہ دوسری بار انتخاب جیت کر اقتدار کے ایوان تک پہنچ گئے ہیں… اتفاق یہ ہے کہ دونوں بار ان کے مد مقابل خواتین امیدوار تھیں… سنتالیسویں امریکی صدر منتخب ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ روایتی امریکی سیاست دانوں کے مقابلے میں مختلف شخصیت کے مالک ہیں ان کا کردار بطور صدر ماضی میں بھی کئی پہلوئوں سے منفرد رہا ہے اور آئندہ بھی ان سے اسی طرح کے طرز عمل کی توقع کی جا رہی ہے… یک محوری دنیا میں اس وقت امریکہ بین الاقوامی سطح پر مدار مہام کی حیثیت رکھتا ہے اور وہاں رونما ہونے والی کوئی بھی تبدیلی پوری دنیا کو متاثر کرتی ہے تاہم اس ضمن میں پاکستان میں جو بحث شروع ہو گئی ہے وہ اگرچہ سیاسی لحاظ سے دلچسپ ہے مگر ایک آزاد و خود مختار قوم کے شایان شان نہیں جس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس بحث کا موضوع بدقسمتی سے کوئی قومی مسئلہ نہیں بلکہ خالصتاً ایک انفرادی اور شخصی مسئلہ ہے… یہ بحث انتخابی عمل کی تکمیل سے قبل ہی شروع ہو گئی تھی کہ اگر امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہو گئے تو وہ پاکستان میں قید تحریک انصاف کے بانی و سربراہ عمران خاں کی رہائی کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں گے۔ اب ان کی کامیابی کے بعد یہ بحث زیادہ شدت اختیار کر گئی ہے اور اس میں بنیادی کردار مسلم لیگی رہنما سابق سینیٹر مشاہد حسین سید کا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ عمران خاں کی جیل سے رہائی کے لیے لازماً آواز بلند کریں گے، سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے بھی یہ کہہ کر مشاہد حسین سید کی تائید کی ہے کہ ٹرمپ اور عمران خاں کی سوچ میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے تو ڈونلڈ ٹرمپ کو کامیابی پر خط بھی لکھ دیا ہے جس میں کامیابی پر روایتی مبارک باد کے ساتھ ڈھکے چھپے الفاظ میں عمران خاں کے لیے ہمدردی اور رہائی کی خاطر حسن طلب کے جذبات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ خیبر پختون خوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے بھی امید بھرے الفاظ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر اظہار مسرت کیا ہے اور اپنے مخالفین کو طعنہ دیا ہے کہ امریکی انتخابی نتائج سے نواز لیگ والوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا پر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی تھی اب یو ٹرن لے کر یہ لیگی رہنما اپنی پوسٹیں ڈیلیٹ کر رہے ہیں اور ٹرمپ کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ اس ضمن میں تحریک انصاف کے سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا موقف اپنے ساتھیوں سے خاصا مختلف ہے جن کا کہنا ہے کہ ہمیں ٹرمپ کی کامیابی سے کچھ لینا دینا نہیں، ہم اپنے ملکی معاملات میں مداخلت کی کسی کو اجازت نہیں دیتے۔ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے ہم اپنی جدوجہد خود کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ جہاں تک ڈونلڈ ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی سے عمران خاں کی رہائی کی امید لگانے والے تحریک انصاف کے رہنمائوں کا تعلق ہے تو شاعر عرصہ قبل ان ہی کے لیے کہہ گیا ہے کہ ؎
ہو مرنے پہ جس کی امید
نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے
دوسری جانب حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ ٹرمپ کی کامیابی سے فارم 47 کی مرہون منت اقتدار کے ایوانوں میں موجود نواز لیگ کے رہنمائوں کی نیندیں واقعی حرام ہو چکی ہیں جس کا اندازہ ان کے بیانات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ طویل عرصہ سے وزیر اعظم کے نہایت قریب سمجھے جانے والے قابل اعتماد ساتھی اور ان کے موجودہ سیاسی مشیر رانا ثناء اللہ نے اگر ایک جانب یہ فرمایا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے امریکی دبائو ایک مفروضہ ہے تو ساتھ ہی یہ فراخدلانہ پیش کش بھی کر دی ہے کہ امریکہ چاہے تو عافیہ صدیقی کے بدلے بانی پی ٹی آئی کو لے جائے۔ اگرچہ یہ کوئی راز نہیں کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے معاملہ میں وزیر اعظم اور ان کے سیاسی مشیر کس قدر با اختیار ہیں مگر بیان دینے میں کیا حرج ہے… وفاقی کابینہ کا انتہائی اہم قلمدان رکھنے والے وزیر دفاع خواجہ آصف، جنہیں اپنے محکمے کے علاوہ دیگر تمام ملکی امور کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ گفت گو کرنے کی شہرت حاصل ہے… نے بھی امریکہ کے انتخابی نتائج کے فوری بعد ایک سے زائد بار خیال ظاہرف کیاہے کہ ’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ امریکہ سے کال آنے کی دیر ہے، بانی پی ٹی آئی کو حوالے کر دیا جائے گا کیونکہ پاکستان امریکہ کو اس کام پر انکار کی جرأت نہیں کر سکتا مگر لگتا نہیں کہ ٹرمپ، بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا کہیں گے۔‘‘ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا معاملہ کس سطح پر موضوع بحث ہے اس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایاجا سکتا ہے کہ اپنی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ صاحبہ نے بھی یہ وضاحت ضروری سمجھی ہے کہ امریکہ کے ساتھ دہائیوں پرانے تعلقات ہیں، پاکستان کے اندرونی معاملات کے بارے میں مداخلت کی قیاس آرائیاں غلط ہیں، ہم پاک امریکہ تعلقات میں مزید مضبوطی کے خواہاں ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر صدر مملکت اور وزیر اعظم نے مبارک باد دی ہے، پاکستان دوسرے ممالک کی سیاست اور اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔‘‘ دفتر خارجہ کی ترجمان کا بیان یہاں تک تو سو فیصد درست ہے کہ امریکہ سے دہائیوں پرانے تعلقات ہیں تاہم بیان کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے بارے میںحصہ کی تائید حقائق کی روشنی میں ممکن نہیں اگر یقین نہ آئے تو پاکستان کے دہائیوں پرانے مطلق العنان حکمران، صدر مملکت ، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور خود ساختہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں، جو مغرب کے بہت قریبی دوست اور لاڈلے تصور کئے جاتے تھے ، کی کتاب ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ کا مطالعہ کر لیا جائے۔ انہوں نے بڑی وضاحت سے بتایا ہے کہ : ؎
ناحق ہم مجبوروں پہ تہمت ہے مختاری کی
جو چاہے سو آپ کرے ہیں، ہم کو عبث بدنام کیا
فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں کی یہ تصنیف اگرچہ انگریزی میں ہے تاہم اس کا اردو ترجمہ بھی اس زمانہ میں خاصے اہتمام سے شائع کر دیا گیا تھا تاکہ دیسی یا کم تعلیم یافتہ لو گ بھی اس کے مندرجات سے آگاہ ہو سکیں۔ اردو ترجمہ کا عنوان ہی بہت سے حقائق کی نقاب کشائی کر دیتا ہے جس کے لیے علامہ اقبال کے اس مشہور شعر کا دوسرا مصرع موزوں سمجھا گیا تھا:۔
اے طائر لاہوتی، اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو، پرواز میں کوتاہی
ہمارے دفتر خارجہ کے عدم مداخلت کے اصولی دعوے کی طرح دنیا کے تمام ممالک خصوصاً ترقی یافتہ اگرچہ آج کل تہذیب و شائستگی، بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری اور برابری و مساوات جیسے خوبصورت و خوش نما دعوے کرتے نہیں تھکتے مگر حقیقت آج بھی اس سے مختلف نہیں جسے تاریکی و جہالت اور پتھر کا دور کہا جاتا ہے مداخلت تو بہت معمولی بات ہے، عملاً آج بھی ’’جس کی لاٹھی، اس کی بھینس‘‘ کے قدیمی اصول کا راج ہے… اگر کسی کو شک ہو تو ایک نظر غزہ فلسطین، لبنان، شام، کشمیر اور برما وغیرہ کے موجودہ حالات اور جدید و مہذب ہونے کے دعوے دار ممالک کے طرز عمل پر ڈال لے…!!!