یہ ایک ننھی بچی تھی جو مردوں کے ایک ایسے ہجوم میں دور سے بہت مشکل سے نظر آرہی تھی جن کو اسرائیلی فوج نے کپڑے اتارنے کا حکم دیا تھا وہ بچی خوفزدہ اور حیران تھی۔ اس تصویر کے پس منظر میں کھنڈر عمارتیں نظر آرہی ہیں۔ یہ قافلہ جو اس تنہا بچی کے ساتھ نقل مکانی کررہا تھا اور پھر وہ ہوا جو اس بچی کے لیے پریشان کن تھا غزہ میں اسرائیلی فوج تھکے ہارے فلسطینیوں کو بار بار ایک جگہ سے دوسری جگہ انخلا کا حکم دے دیتے ہیں۔ ایک سال سے زیادہ عرصے پر پھیلی اس جنگ میں اسرائیلی فوج بار بار انخلا کا حکم دیتی ہے۔ یہاں تک کہ کبھی تین ہفتوں میں دس بارہ دفعہ اہل غزہ کو انخلا کا حکم دیا جاتا ہے بعض دفعہ چند دن ہی ایک جگہ گزار کر انہیں کسی دوسری طرف نکلنے کا کہا جاتا ہے۔ اہل غزہ کہتے ہیں کہ اسرائیلی فوجی یہ نہیں بتاتے کہ کون سی جگہ ہمارے لیے محفوظ ہے کہ ہم وہاں چلے جائیں، ہم جہاں پہنچتے ہیں وہیں بمباری کردی جاتی ہے یا وہاں سے بھی انخلا کے لیے کہہ دیا جاتا ہے۔ یہ چھوٹی سی لڑکی جو سوشل میڈیا میں دی گئی تصویر میں کہیں دور دیکھ رہی ہے۔ جیسے وہ ان بندوق بردار فوجیوں اور کیمرہ مین کو دیکھنا نہیں چاہتی ہو۔ یہ بچی کون ہے؟ اور وہاں اس کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ سوالات کئی صحافیوں کے گروپ میں اُٹھے لیکن ظاہر ہے کہ اسرائیل کسی بھی بین الاقوامی میڈیا کو غزہ میں آزادانہ رپورٹنگ کی اجازت نہیں دیتا۔ غزہ کے فلسطینی صحافیوں کو وہ پہلے ہی ختم کرچکا ہے۔ پھر بھی چند فری لانس صحافیوں سے بی بی سی نیٹ ورک نے معلومات حاصل کی انہیں تصویر دکھائی چند گھنٹوں ہی میں جواب آگیا جو ٹیکسٹ میسج تھا کہ لکھا تھا کہ ’’ہم نے اسے ڈھونڈ لیا ہے یہ تین سالہ جولیا ابووردہ ہے اور ابھی زندہ ہے‘‘ جولیا کے والد بتاتے ہیں کہ اس روز اسرائیلی ڈرون پر لوگوں کو علاقے سے نکل جانے کا اعلان کیا گیا یہ انخلا لخلفاء ڈسٹرکٹ تھا، اسرائیلی فوجی فائرنگ کررہے تھے ہم وہاں سے نکل کر جبالیہ کیمپ کی طرف جارہے تھے۔ خاندان میں اور لوگ بھی تھے لیکن پھر وہ اور ان کی بیٹی خاندان سے بچھڑ
گئے، ہم آگے بڑھے ہر طرف تباہی کے خوفناک مناظر تھے، لاشیں بکھری ہوئی تھیں، ہم بچھڑ کر اسرائیلی فوجیوں میں گھر گئے۔ انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ انڈویر کے علاوہ کپڑے اتار دیں یہ اسرائیلی فوج کا معمول ہے اور وہ تصویر اسی موقع کی ہے۔ جولیا ذہنی صدمے میں ہے وہ اپنے کزن بھائی کو کھوچکی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر بتارہی ہیں کہ گزشتہ ہفتے جبالیہ کیمپ میں دو روز کے دوران اسرائیل کی بمباری میں 50 سے زیادہ بچے ہلاک ہوگئے۔ شمالی غزہ کے کمال عدوان اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حسام ابوصفیہ غم سے نڈھال ہیں ان کے اپنے بیٹے اسرائیلی بمباری کا شکار ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم بہت تکلیف اور صدمے سے دوچار ہیں اسرائیل ہم سے ہمارے بچے چھین رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا بیٹا اسرائیلی بمباری سے شہید ہوا اس کی شہادت کے بعد اس کو دفنانے میں بھی ہم مشکلات کا شکار ہوئے۔ اپنے بیٹے کو اسپتال کی دیوار کے ساتھ دفن کیا کیونکہ اسے قبرستان لے جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ انہوں نے ہمارے بچوں کو ہمارے سامنے مار ڈالا صرف اسی لیے کہ ہم زخمیوں اور بیماروں کے لیے انسانی ہمدردی کا پیغام لے کر جاتے ہیں۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز اسرائیلی درندگی کے دستاویزی ثبوت کے ساتھ بتارہا ہے کہ اسرائیل نسل کشی میں ملوث ہے وہ بچوں کو اسنائپرز سے مار رہا ہے۔ اخبار امریکی ڈاکٹر کے بیانات کا حوالہ دے رہا ہے جو بتارہے ہیں کہ انہوں نے بہت سے بچے دیکھے جن کے سر اور سینے میں گولیاں لگی تھیں۔ اور ایک رات میں انہوں نے پانچ سے بارہ سال کے چھے بچوں کو دیکھا جن کی کھوپڑی پر گولیوں کے نشانات تھے۔ آج امریکی حمایت میں غزہ کی جنگ میں ایک لاکھ چالیس ہزار فلسطینی شہید اور زخمی ہوچکے ہیں اور دس ہزار سے زیادہ لاپتا ہوچکے ہیں، ان میں چودہ ہزار سے زائد بچے شامل ہیں۔ ادھر اقوام متحدہ اس سلسلے میں زبانی کلامی تنبیہات کے علاوہ کچھ نہیں کررہی ہے اور انسانی حقوق کے علمبردار ممالک اور پوری دنیا خاموشی سے سب دیکھ رہی ہے۔