اقبال؍ فارسی کلام
دی شیخ با چراغ ھمی گشت گردِ شہر
کز دام و دد ملولم و انسانم آرزوست
مطلب: کل شیخ چراغ لیے شہر میں میں گھوم رہا تھا کہ میں جانوروں حیوانوں اور درندوں سے تنگ ہو گیا ہوں۔ مجھے کسی انسان کی آرزو یا تلاش ہے۔
زیں ھمرہانِ سست عناصرِ دلم گرفت
شیرِ خدا و رستمِ دستانم آرزوست
مطلب: یعنی جو آدمی ہر جگہ چلتے پھرتے نظر آ رہے ہیں ان کی حقیقت چوپایوں اور درندوں کی سی ہے۔ ان سست الوجود اور نکمے ہمراہیوں سے تو میرا دل بیزار ہو گیا ہے۔ مجھے شیرِ خدا اور رستم دستاں (جیسے شجاع اور بہادر انسان) کی تلاش ہے۔
گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست
مطلب: میں نے کہا وہ تو مل نہیں رہا جسے آپ تلاش کر چکے ہیں۔ جواب میں شیخ نے کہا کہ وہ جو مل نہیں رہا اسی کی تو مجھے تلاش و آرزو ہے۔ گویا اسرار خودی کا مدعا بھی اس کے سوا کچھ نہیں کہ شیر خدا اور رستم دستاں جیسے انسان پیدا کرے جواب بازار زندگی میں کہیں نظر نہیں آتے۔ یہ کتاب اس لیے لکھی کہ اس کی تعلیمات سے انسان حقیقی معنی میں انسان بن جائے۔ سست عناصر ہمراہی ایسے معاصرین ہیں جو جہدوعمل سے عاری ہیں۔ شیر خدا اور رستم دستاں سے مراد ایسا مردِ کامل ہے جو انسانی معاشرے سے ظلم و ستم اور فساد ختم کر کے اسے ایک زبردست انقلاب سے آشنا کر دے تاکہ انسانی معاشرے میں حق کا بول بالا ہو۔