شکر گزاری اور صبر کی اہمیت

176

انسان اپنی زندگی میں مختلف حالات اور مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ بعض اوقات ہمیں لگتا ہے کہ ہماری زندگی میں بہت مسائل ہیں، اگر ہم اپنی نظر سے ان لوگوں کو دیکھیں جو ہم سے زیادہ مشکل حالات میں ہیں، تو ہمیں اپنی زندگی کی قدر محسوس ہونے لگتی ہے۔ شکر گزاری ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب لے جاتی ہے اور ہمیں وہ سکون عطا کرتی ہے جو ہمیں دنیا کے مال و دولت میں نہیں ملتا۔ قرآن و حدیث بار بار ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ شکرگزار بندہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔

قرآن مجید میں ہمیں سیدنا سلیمانؑ کا واقعہ ملتا ہے، جو اللہ کے شکر گزار بندے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت زیادہ نعمتوں سے نوازا تھا، یہاں تک کہ جنات اور پرندے بھی ان کے تابع تھے۔ ایک دن جب انہوں نے چیونٹیوں کی بات سنی کہ وہ اپنے لشکر سے بچنے کے لیے چھپ رہی ہیں تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’اے میرے ربّ! مجھے توفیق دے کہ میں تیرے انعام کا شکر ادا کروں‘‘۔ (سورہ النمل، آیت 19)

یہ دعا ہمیں سکھاتی ہے کہ نعمتیں چاہے کتنی ہی بڑی ہوں، شکر گزاری کرنا نہایت ضروری ہے اور مشکلات میں صبر۔ سیدنا ایوبؑ کی مثال بھی ہمارے لیے سبق آموز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت بڑی آزمائشوں سے گزارا، لیکن انہوں نے کبھی شکوہ نہ کیا بلکہ صبر اور شکر کا دامن تھامے رکھا۔ ان کی بیماری کے دوران انہوں نے اللہ تعالیٰ سے صبر کی دعا کی اور اللہ نے انہیں صبر کا عظیم انعام عطا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا۔ ’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا‘‘۔ (سورہ ابراہیم، آیت 7)

یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ شکر گزاری کے ذریعے نہ صرف ہم اللہ تعالیٰ کی مزید نعمتیں حاصل کر سکتے ہیں بلکہ ہماری زندگی میں موجود نعمتوں کی قدر بھی بڑھ جاتی ہے۔ جس میں انسان کے لیے بھلائی ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’مومن کا معاملہ عجیب ہے کہ اس کے لیے ہر حال میں بھلائی ہے، اگر اسے خوشی ملتی ہے تو شکر ادا کرتا ہے اور اگر اسے کوئی دکھ پہنچتا ہے تو صبر کرتا ہے، اور یہ اس کے لیے بھلائی بن جاتی ہے‘‘۔ (صحیح مسلم)

یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ مشکلات میں صبر اور آسانیوں میں شکر کرنے سے ہمیں نہ صرف اطمینان ملتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ بھی ہماری اس کوشش کو پسند کرتا ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اپنے سے کم تر کو دیکھو اور اپنے سے بہتر کی طرف نہ دیکھو، اس طرح تم اللہ کی نعمتوں کی ناشکری نہیں کروگے‘‘۔ (بخاری ومسلم)

یہاں نصیحت کی گئی ہے کہ جب ہم اپنی زندگی میں کسی مشکل یا کسی کمی کا سامنا کریں، تو ان لوگوں کو یاد کریں جن کے پاس ہماری جیسی نعمتیں بھی نہیں ہیں۔ یہ عمل ہمیں شکر گزاری کی طرف مائل کرتا ہے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا کی زندگی مختصر ہے اور اصل کامیابی آخرت کی زندگی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ہر جان کو موت کا مزا چکھنا ہے، اور تم سب کو قیامت کے دن تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا‘‘۔ (سورہ آل عمران، آیت 185)

ہمیں اس دنیا کی زندگی میں نیکی کے موقعوں کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنی آخرت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ زندگی میں نعمتوں کو یاد کر کے اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ خوشیوں کا شکر ادا کر کے ہم نہ صرف خود کو روحانی طور پر مضبوط بنا سکتے ہیں بلکہ یہ عمل ہمارے اندر سکون اور اطمینان کی کیفیت پیدا کرتا ہے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

شکوے سے بڑھ کر کوئی بیماری نہیں ہے
شکر سے بڑھ کر کوئی بھی دارو نہیں

زندگی میں شکر گزاری ہی وہ دوا ہے جو ہمارے دل و دماغ کو پر سکون رکھتی ہے اور ہمیں اللہ کی رحمتوں کا مستحق بناتی ہے شکر گزاری کو معمول بنا لیں۔ ہمیں اپنی زندگی میں نعمتوں کو پہچان کر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے، کیونکہ اسی میں ہماری فلاح اور بھلائی ہے۔ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا ہماری نہ صرف دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی کامیاب بہترین ذریعہ بنے گا۔ ان شاء اللہ