ہمارا دائمی احساسِ کمتری

135

(گزشتہ سے پیوستہ)
میں: مجھے لگتا ہے گزشتہ نشست میں ہماری گفتگو ادھوری سی رہی، شاید کچھ تشنگی باقی رہ گئی اور بعض وضاحتوں میں کچھ ابہام سا بھی لگا۔ جیسے تم نے دائمی احساس کمتری کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ گزشتہ ڈیڑھ دو صدیوں میں کم وبیش دس نسلیں گزر چکی ہیں یعنی تمہارے نزدیک یہ عمل ۱۸۲۵ء کے لگ بھگ شروع ہوا تھا؟

وہ: ہوسکتا ہے زیب ِ داستان کے لیے ایک آدھ جملہ غیرمتعلق در آیا ہو، لیکن کچھ باتیں تشنہ ضرور رہ گئیں تھیں، ویسے صحیح معنوں میں اس کا عملی آغاز کمپنی کی مقبوضہ حکومت کے دوران ۱۸۳۵ء کے اوائل میں ہوا جب لارڈ میکالے کا برصغیر کے خاص وعام کے لیے بنایا گیا تعلیمی نظام سرکاری حیثیت میں نافذ کردیا گیا۔ جس سے سب سے پہلے برصغیر میں برسوں سے رائج نظام تعلیم کی بنیادی زبانوں یعنی، فارسی، عربی، ہندی اور اردو متاثر ہونا شروع ہوئیں۔ پھر ہرگزرتے دن کے ساتھ جیسے جیسے انگریزی زبان کا عمل دخل بڑھتا گیا ویسے ویسے ہم اپنی اِن مادری اور علمی زبانوں کے حوالے سے احساسِ کمتری میں مبتلا ہوتے گئے، جو صرف ہماری گفتگو اور ابلاغ کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ ہماری مٹی اور روح کا حصہ تھیں۔ اس کے بعد رہی سہی کسر کچھ اکابرین نے انگریزی زبان اور مغربی تہذیب کو اپنا قبلہ وکعبہ مان کر پوری کردی۔ جس کی سب سے نمایاں مثالیں برصغیر میں سرسید اور ترکی کے مصطفی کمال اتاترک ہیں۔

میں: اتاترک تک تو ٹھیک ہے کہ وہ اس مرعوبیت میں مغربی کی سرتاپا غلامی کی حدوں سے اتنے آگے نکل گئے تھے کہ اپنے مسلمان ہونے پر ہی شرمندہ رہے۔ لیکن جہاں تک سرسید کی بات ہے، ان کا زور تو بس مسلمانوں کے لیے جدید تعلیم کے حصول پر تھا۔

وہ: جدید نہیں صرف انگریزی تعلیم یعنی انگریزی زبان سیکھنے، ان کے چال چلن، جی حضوری کے آداب اور انگریزی ادب کو سمجھنے سمجھانے تک محدود رہنے کی بات کی۔ سرسید کی مرعوبیت کا تو یہ حال تھا کہ وہ مقامی ہندوستانیوں کو جاہل اور اجڈ سمجھتے تھے اور گورے انگریزوں کو تہذیب یافتہ، انگریزی ادب کے آگے عربی، فارسی، سنسکرت، اردو اور ہندی کے سرمائے کو کسی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ وہ ابن ِ عربی، امام غزالی، شاہ ولی اللہ اور شنکر اچاریہ کے مقابلے میں شیکسپیئر، ڈارون اور کانٹ کی سو چ اور نظریات کو اہمیت دیتے تھے اور ان کی یہ ساری مرعوبیت صرف انگریزوں کے ظاہری خدو خال، طرزِ گفتگو، نشست و برخاست اور اوپر اوپر کی نفاست کی وجہ سے تھی۔

میں: لیکن سر سید نے تو ایک سائنٹفک سوسائٹی بھی بنائی تھی جس میں اس وقت کی سائنسی تحقیق اور کتابوں کے برصغیر کی مقامی زبانوں یعنی اردو، ہندی وغیرہ میں تراجم کیے جاتے تھے۔

وہ: ہاں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے سائنٹفک سوسائٹی کے ذریعے انگریزی زبان کی کچھ سائنسی کتابوں کے تراجم مقامی ہندی اور اردو زبان دانوں سے کرائے تھے، لیکن انگریزوں کی تقلید کے حوالے سے ان کا مطمح نظر یکسر مختلف تھا۔ ان کے نزدیک مغرب سے برصغیر میں آنے والی نت نئی مشینری اور ایجادات برصغیر میں ایک انقلاب برپا کررہی تھیں جس کے ذریعے ہندوستان تیزی سے ترقی کی منازل طے کرسکتا ہے اور وہ خود نوجوانوں کے لیے ٹیکنیکل ایجوکیشن کے حصول کی مخالفت کرتے رہے۔

میں: اس موقع پر میرے ذہن میں ایک اور سوال آرہا ہے کہ جب انگریز مسلم سائنس دانوں کی خدمات اور ایجادات کو مشعل راہ بناتے ہوئے اپنی سائنسی تحقیق اور صنعتی ترقی کی داغ بیل ڈال رہے تھے تو وہ اسلامی تہذیب کے سماجی رویوں، طرز ِ معاشرت، نظام عدل ومعیشت وغیرہ سے کیوں مرعوب نہیں ہوئے یا انہیں اپنے سماج کے لیے کیوں پسند نہیں کیا؟

وہ: تمہارا سوال اہم ہے اور اس کے لیے ایک علٰیحدہ نشست کی ضرورت ہے، مگر جہاں تک اسلام کے یورپ یا مغرب پر اثرات کی بات ہے تو بے شمار کتب اس موضوع پر موجود ہیں اور کی تفصیل کی یہاں چنداں ضرورت نہیں۔ اس حوالے سے میری ذاتی رائے یہ ہے کہ صنعتی دور کے بعد دنیا میں جو انقلاب آیا ہے اس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں کچھ اس طرح لیا ہے کہ نظریاتی اور عملی دونوں سطح پر ہر خطے، ہر مذہب، ہر سماج کے انسان نے مادی اشیا کے حصول کے لیے اپنا ایمان، اخلاقیات اور اقدار سب ہی کچھ دائو پہ لگا دیا۔

میں: لیکن مجھے تمہاری اس بات پر اب بھی اعتراض ہے کیوں کہ انسان جو چیزیں آج اپنی روز مرہ کی زندگی میں استعمال کررہا ہے وہ تو ہر دور میں بدلتی رہی ہیں اور ان میں مسلسل تبدیلی اور بہتری کا عمل جاری ہے، جاری رہے گا اور انسان اپنی زندگی کو ان ہی کی مدد سے آسان بناتا رہے گا۔

وہ: بات یہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو اصل میں یہ دو الگ الگ نظریات کے ستونوں پر کھڑی تہذیب وتمدن کا فرق ہے، ایک طرف سادگی ایمان کی علامت قرار پائی (سادگی سے مراد معمولی لباس اور غذا پر اکتفا کرنا ہے) تو دوسری جانب نمودو نمائش اور اسٹیٹس وجہ افتخار ٹھیرے۔ ایک سوچ نے دلوں کو ایمان کی روشنی سے منور کرکے آخرت میں نجات کی فکرکا چراغ روشن کیا، تو دوسری نے اس عارضی دنیا کی رونقوں کو مطلوب ومقصود بنا کر دلوں کو مستقل اندھیروں کی کال کوٹھڑی میں بدل کررکھ دیا۔ اگر غور کرو تو گزشتہ ڈیڑھ دوسو سال سے جاری ترقی کی اس سوچ اور فکر نے دو دھاری تلوار کا کام کیا ہے۔ ایک طرف تمام مذاہب کے پیروکار بالعموم اور ہم مسلمان بالخصوص نہ صرف اپنی اصل بنیادوں کو فراموش کر بیٹھے اور دوسری طرف مغربی تہذیب سے برابری کی فکر میں ہمارا احساس کمتری مستقل بڑھتا چلا گیا۔ ذرا غور کرو جب ہمیں دنیا کی طلب کے بجائے آخرت میں کامیابی مقصود تھی تو مسلمان اس دنیا میں برتری کی معراج پر تھے اور ساری دنیا ہماری علمی سوچ، سماجی وحدت اور طرز زندگی سے مرعوب تھی۔ مگر آج مادی ترقی کے فریب میں آکرمغرب کی اندھی تقلید اور دنیا کی ترقی اور سہولتوں کا حصول ہماری زندگیوں کا مقصدبنا تو بقول اقبالؔ۔۔۔

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا