اسلام آباد: وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) میں ترمیم سے گمشدہ افراد کے مسئلے کا جزوی حل اور دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مشتبہ دہشت گردوں کو تین ماہ تک حراست میں رکھنے کا اختیار دینے سے ان اداروں کو قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
رانا ثناء اللہ نے بتایا کہ ان قانونی اختیارات کے فقدان کے باعث گمشدہ افراد کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے، کیونکہ دہشت گردی کے شبہ میں گرفتار افراد کو باضابطہ قانونی طریقے سے حراست میں نہیں لیا جا سکتا۔ حال ہی میں حکومت نے انسداد دہشت گردی (ترمیمی) بل 2024 قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے جس میں اے ٹی اے کے سیکشن 11EEE میں تبدیلی کی تجویز دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مجوزہ ترمیم کے مطابق، قانون نافذ کرنے والے ادارے مصدقہ معلومات یا معقول شبہ کی بنیاد پر کسی شخص کو تین ماہ تک حراست میں رکھنے کا اختیار حاصل کر سکیں گے۔ اس بل پر انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے تنقید کرتے ہوئے اسے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس بل کو واپس لے کر عدالتی نگرانی کے بغیر قانون سازی نہیں کرے ۔
رانا ثناء اللہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں کرنے والے اداروں کے پاس مشتبہ افراد کو قانونی طور پر حراست میں رکھنے کا اختیار نہیں ہے۔ ان کے مطابق، قمر جاوید باجوہ نے بھی کہا تھا کہ اگر سول اور فوجی اداروں کو مشتبہ دہشت گردوں کو حراست میں لینے کا قانونی حق نہ ملا تو گمشدہ افراد کا مسئلہ برقرار رہے گا۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ماضی میں اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے ایک جامع حکمت عملی پر غور کیا گیا تھا، تاہم میڈیا اور سماجی تنظیموں کی ممکنہ تنقید کے پیش نظر مطلوبہ قانون سازی نہیں کی جا سکی۔
ماہرین کے مطابق، اس ترمیم کے ذریعے ایک ایسا قانونی ڈھانچہ تشکیل دیا جا سکے گا جس میں نہ صرف دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں آسانی ہوگی بلکہ شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا۔