اسلام آباد: پاکستان کے اعلیٰ حکام ترکمانستان-افغانستان-پاکستان-بھارت (تاپی) گیس پائپ لائن منصوبے سے دستبرداری پر غور کر رہے ہیں، اگر بھارت اس کا حصہ نہیں بنتا تو یہ منصوبہ “تاپ” بن جائے گا، جو پاکستان کے لیے ممکنہ طور پر قابلِ عمل نہیں ہوگا۔
حکومتی ذرائع کے مطابق پیٹرولیم ڈویژن کے ایک سینئر اہلکار نے حالیہ دنوں میں جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کو آگاہ کیا کہ بھارت کی جانب سے تاپی منصوبے کے لیے خاص دلچسبی دکھائی نہیں سے رہی ۔ بھارت کی غیر موجودگی میں پاکستان کو سالانہ 500 ملین ڈالر کی ٹرانزٹ فیس کے علاوہ 7.5 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے گیس کی قیمت بھی ادا کرنا ہوگی، جو کہ مالی طور پر بوجھ ثابت ہوسکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، اگر بھارت اس منصوبے کا حصہ رہتا ہے تو پاکستان کو سالانہ 700 سے 800 ملین ڈالر کی ٹرانزٹ فیس حاصل ہوگی، جس سے پاکستان کو خاطر خواہ بچت ہوگی۔ بھارت کو افغانستان اور پاکستان دونوں کو الگ الگ ٹرانزٹ فیس ادا کرنی ہوگی۔ منصوبے کی لاگت 10 ارب ڈالر ہے، جس میں ترکمانستان کا 85 فیصد حصہ ہے جبکہ افغانستان، پاکستان اور بھارت کے پاس 5 فیصد حصہ ہوگا۔
تاپی منصوبہ ترکمانستان کے گالکنیش گیس فیلڈ سے گیس کو افغانستان، پاکستان اور بھارت تک پہنچانے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے، جو سالانہ 33 ارب کیوبک میٹر گیس فراہم کرے گا۔ گیس لائن افغانستان میں ہرات اور قندھار سے پاکستان میں چمن، ژوب، ڈی جی خان اور ملتان سے ہوتی ہوئی پاک بھارت سرحد فضلکہ پر پہنچے گی۔
بھارت کی جانب سے ابھی تک اس منصوبے سے مکمل دستبرداری کا اعلان نہیں کیا گیا، تاہم سیکیورٹی خدشات اور افغانستان کی غیر مستحکم سیاسی صورتحال کے پیش نظر بھارت محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ دوسری جانب، پاکستان میں گیس کی طلب میں نمایاں کمی آچکی ہے، اور درآمد شدہ ایل این جی کی مکمل کھپت میں بھی مشکلات درپیش ہیں۔
تاپی منصوبے کو شروع کرنے میں متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں مالیاتی امور، سیکیورٹی خطرات اور علاقائی سیاسی کشیدگی شامل ہیں۔ پاکستان نے ترکمانستان کو اپنی سرزمین پر سرمایہ کاری کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی ہے، تاہم غیر ملکی سرمایہ کاری تحفظ ایکٹ (FIPPA) کے تحت اضافی قانونی تحفظ دینے سے انکار کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، اگر بھارت الگ ہوتا ہے تو تاپی گیس منصوبہ پاکستان کے لیے مزید سودمند نہیں رہے گا۔