ایک سال کی جنگ میں اہل فلسطین نے اپنی پامردی، شجاعت، پہاڑوں سے مضبوط ایمان، تائید خداوندی سے قابض اسرائیلی فوج کو زبردست جانی اور مالی نقصان کے ساتھ ذلت اور رسوائی کے تازہ زخموں سے دنیا میں ان کی حقیقت کو بے نقاب کیا ہے۔ امریکا کی پشت پناہی یورپی ممالک کی ہم نوائی اور مسلم ممالک کی بے حسی نے انسانی جانوں کا زیاں بڑھا دیا ہے۔ فلسطین کی سرزمین کے ذرّے لہو سے سرخ ہیں۔ رفح، جبالیہ، الزیتون اور دیگر کیمپ کھنڈر بنتے جا رہے ہیں وہاں بھوک، پیاس ادویات کی نایابی اسپتالوں پر بمباری و فائرنگ نے معصوم بچوں کمزور عورتوں کو زندگی سے محروم کر دیا ہے۔ نوجوانوں کی لاشیں گلیوں میں پڑی ہیں جتنے لوگ شہید ہوئے ہیں اس سے کہیں زیادہ زخمی اور ملبے کے نیچے ہیں۔ ان حالات کے باوجود حماس اور تمام جہادی مزاحمتی تنظیموں کے مجاہدین دشمن کی گھات میں اپنی پوزیشن سنبھالے بیٹھے ہیں، بار بار اپنی صف بندی کرتے ہیں اور قابض فوجیوں، ان کے ٹینکوں، گاڑیوں کو نشانہ بناتے ہوئے کامیابی کی طرف جانے والے قدموں کو ذلت کے ساتھ پلٹنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ جبالیہ میں بہادری کی داستانوں نے اسرائیل کا تکبر اور اس کا استبدار توڑ کر رکھ دیا ہے۔ جبالیہ کیمپ کی تاریخ بہادری سے بھری پڑی ہے اور یہ ایک ڈراؤنا خواب تھا جو اسرائیل اور اس کی شکست خوردہ فوج کو پریشان کرتا ہے۔ جبکہ غزہ کے مجاہدین کہتے ہیں غزہ میں ہمارے مجاہدین ان کی جڑیں فلسطین کے پہاڑوں کی طرح مضبوط ہے، غزہ میں پہاڑ نہیں ہے لیکن وہاں بہادر مرد ان کے شاندار عظیم لوگ بہادر اور وفادار جنگجو ہیں خدا کی قدرت سے وہ ظاہر ہوتے ہیں اور دشمن کو ملبے کے نیچے سے نکال لیتے ہیں۔ یہ عزم و حوصلہ رکھنے والوں کو شکست دینا ناممکن ہے۔
مجاہدین کہتے ہیں کہ عظیم فلسطینی عوام اپنی سرزمین پر ثابت قدمی سے اپنی شناخت اور مقدسات کا دفاع کرتے ہوئے اب بھی جڑیں پکڑے ہوئے ہیں اور اپنی سرزمین اور وطن سے چمٹے ہوئے ہیں، اور غاصب ہستی معدومیت اور خاتمے کے قریب ہے۔ غزہ، روا، جبالیہ، بلکرام وغیرہ میں مجاہدین کو بڑی کامیابی حاصل ہیں۔ جدید ہتھیاروں کے مقابلے میں خود ساختہ ہتھیاروں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے پھر بھی جنگ کی طوالت اسرائیلی پروپیگنڈے کی نفی کرتی ہے کہ وہ ناقابل تسخیر ہے بلکہ مارٹر گولوں ہیلی کاپٹرز اینٹی ائر کرافٹ، میزائل، آر پی جی شیل سے حملے شدت کے ساتھ جاری ہیں۔ موجودہ صورتحال کی مزید تفصیل یہ ہے۔ جبالیہ کیمپ میں اپنے گھروں کو لوٹنے کی کوشش کرنے والے شہریوں پر بھی قابض فوج کے حملے میں 15 لوگ شہید اور 30 زخمی ہو گئے ہیں۔ آگ پر قابو پانے والے علاقوں تک طبی ٹیموں کو روکا جا رہا ہے اور وہ سڑکوں پر شہدا تک نہیں جانے دے رہے ہیں۔ اسرائیلی فورسز حنون کے داخلی راستے پر بدستور موجود ہیں اور قصبے کے اندر شہریوں کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ جبالیہ کیمپ پر بمباری جاری ہے اور بڑی تعداد میں بچے خواتین اور مقامی لوگ شہید ہو رہے ہیں۔ خان یونس میں البراق محلے کو اسرائیلی فوج نے نسل کشی کی جاری جنگ میں تباہ و برباد کر دیا ہے۔ غزہ میں اوقاف اور مذہبی امور وزارت کے بیان کا ایک حصہ ہے کہ 604 مساجد کو قابض فوج نے میزائلوں اور بموں سے مکمل شہید کر دیا، تین گرجا گھر کی تباہی کے علاوہ 200 سے زائد مساجد کو جزوی طور پر نقصان پہنچایا ہے، امدادی سامان غزہ میں داخل ہونے میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے کئی ڈرائیوروں کو زدوکوب کیا گیا۔ 60 ہزار بچے رفح میں پناہ کی تلاش میں ہیں جن میں سے کچھ کئی بار بے گھر ہو چکے ہیں تھکے ہوئے صدمے کا شکار بیمار اور بھوکے ہیں۔ اونروا کے مطابق تقریباً 9لاکھ لوگ اسرائیلی فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد سے اب تک نقل مکانی پر مجبور کر دیے گئے اور وہ سڑکوں ٹوٹے پھوٹے گھروں میں گزر بسر کر رہے ہیں۔ ساحل سمندر کی طرف پناہ لینے والوں پر اسرائیلی فوجی بار بار فائرنگ کر رہے ہیں۔
مسجد اقصیٰ کی صورتحال: اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل گوتیرس کے مطابق فلسطینی عوام بہت زیادہ مصائب کا شکار ہے اور رفح پر حملہ قابل قبول نہیں ہے۔ بیت المقدس میں کشیدگی بڑھ رہی ہے اور آباد کار غزہ تک امداد کی آمد میں خوفناک طریقے سے رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ مسجد اقصیٰ کی بیرونی دیوار پر اسرائیلی فوجیوں نے اپنا جھنڈا لگا دیا ہے۔ اسرائیل کو مسجد اقصیٰ پر حملے اور کنٹرول کرنے سے روکنے کے لیے دنیا کے ہر آزاد مسلمان کو کھڑا ہونا چاہیے، روکنا چاہیے اور دباؤ ڈالنا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ صہیونی بندوق بردار کشتیاں غزا کی پٹی کے جنوب میں رفح اور خان یونس کے ساحل کی طرف مشین گنوں سے فائر کر رہے ہیں۔ غزہ میں قحط بہت قریب ہے جس طرح امداد کو روکا جا رہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ بڑی مصیبت میں آنے والے ہیں۔ القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ نے 17 مئی جب طوفان اقصیٰ کے 224 دن پورے ہو گئے تھے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 10 دنوں کے اندر مجاہدین لڑائی کے تمام محاذوں پر سو مختلف صہیونی فوجی گاڑیوں کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں جن میں اسرائیلی ٹینک ٹینکرز اور بلڈوزر شامل ہیں۔ اپنے لوگوں کے خلاف جنگ کو روکنے کے لیے پوری طرح تیار ہونے کے باوجود ہم دشمن کے لیے ایک طویل جنگ کے لیے تیار ہیں جن میں اسے باقی رہنے یا غزہ کے کسی حصے میں داخل ہونے سے کوئی فائدہ نہیں ہے اس کے سپاہیوں کو مارنے اور اس کے افسروں کا شکار کرنے سے یہ نہیں کہ ہم ایک سپر پاور ہیں بلکہ اس لیے کہ ہم اس سرزمین کے لوگ اور حق کے مالک ہیں۔
اسرائیلی ذمے داران اپنی حکومت کے بارے میں کیا کہتے ہیں: میجر جنرل اسحاق برک قابض فوج میں ریزرو ہیں وہ کہتے ہیں جنگ کا جاری رہنا سیف یونی ڈیز رور فوج اور معیشت کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اگلے دن کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہ کرنے سے صہیونی فوج کی صفوں میں مزید ہلاکتیں ہوں گی۔ نمبر تین رفح میں داخل ہونا حماس کا تختہ الٹنے کی ہماری صلاحیت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔ نمبر چار جنگ خواہ طویل عرصے تک جاری رہے اسرائیل کو اس سے کوئی فائدہ نہیں اور اسرائیل کو اس سے شدید نقصان پہنچے گا۔ آخر میں حماس کا پیغام آپ سب کے نام ہم تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فلسطین کاز کے انصاف کی حمایت کریں اور اپنے لوگوں اور ان کی آزادی اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے حق کے ساتھ کھڑے ہوں جس کا دار الحکومت بیت المقدس ہو
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا