عشق و آزادی اور جدائی کانوحہ

154

جنگیں اور تنازعات نہ صرف انسانی ہلاکتوں اور قوموں کی تباہی و بربادی کا باعث بنتی ہیں بلکہ یہ معاشرتی و اقتصادی ڈھانچوں کو بھی تباہ کر دیتی ہیں۔ تاریخ میں جنگ و جدل اور سرحدوں کی تقسیم کی وجہ سے وقوع پذیر ہونی والی ہجرتوں اور خاندانوں کی تقسیم نے انسانوں کو دکھ درد اور مصائب و آلام سے گزارا ہے۔ انسانوں کی یہ تقسیم ارواح کی دائمی اذیت کا سبب بن جاتی ہے۔ انسان کو اپنے عزیزوں کے بے موت مرجانے یا دشمن کی گولی سے مارجانے کی جدائی پر وقت گزرنے کے ساتھ صبر آ جاتا ہے مگر اپنے پیاروں، اپنی جائے پیدائش، اپنے بچپن کے کھیلنے کے میدان، اپنے آبا و اجداد کی مٹی کی خوشبو، وہ مقدس زمین جہاں اس کے خونی رشتے پروان چڑھے، اس سے جدا ہونے کا دکھ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ یہ وہ دکھ ہے جو روح کے اندر پیوست ہو جاتا ہے اور ایک مسلسل اذیت بن کر سانس کے تاروں سے جڑا رہتا ہے۔ اپنوں اور جائے پیدائش سے جدا ہونے والے انسانوں کے وجود کی جڑیں اور انمول ناقابل فراموش یادیں وہیں پیوست رہتی ہیں جہاں ان کی پیدائش ہوئی ہو، جہاں ان کے آبا و اجداد کی سرگوشیاں ہوا میں گونجتی ہیں جہاں ان کی روایات، ثقافت اور عزم و استقامت کی کہانیاں نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں، جہاں انسان خونی رشتوں، جذباتی تعلقات، محبت اور اعتماد کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ شاید ان ہی لامنتہا اور کرب ناک یادوں سے گھبرا کر شاعر نے دعا کی ہے کہ!

یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

جنگ عظیم دوم کے بعد کوریا اور جرمنی کی تقسیم ہو یا گزشتہ صدی کی ساتویں عشرے میں ترک قبرص اور یونانی قبرص کے نام پر خاندانوں اور انسانی آبادیوں کو تقسیم کر کے ان کے درمیان مصنوعی اور ظالمانہ جغرافیائی لیکریں کھینچنا اور دیواریں کھڑی کرنے کا عمل ہو۔ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ یہ سب انسانی فطرت کے خلاف ایک کھلی جنگ تھی اور جنگ ہے۔ ریاست جموں و کشمیر بھی ایسا ہی بد قسمت خطہ ہے جہاں تقسیم ہند کے بعد ہوئی جنگ میں ایک خونیں لکیر کھینچی گئی جس کی وجہ سے لاکھوں انسان آزادی، انسانی وقار اور بنیادی انسانی حقوق کے مطالبے کی پاداش میں اپنے گھر بار چھوڑ کر پاکستان، آزاد کشمیر اور دنیا کے مختلف ملکوں میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔ پے در پے حادثات اور المیوں کی سرزمین کشمیر کے مسلمان عرصہ دراز سے خاندانوں کی تقسیم کے باعث جدائی کے درد و کرب کا شکار ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد ایسی ہے جن کی پہلی اور دوسری نسل اپنی جائے پیدائش اور آبائی وطن کی طرف لوٹنے کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے اس فانی دنیا سے ابدی دنیا کی طرف کوچ کرچکی ہے۔ آج ان کی تیسری نسل اس امید کے ساتھ اپنے بزرگوں کی امیدوں کے چراغ جلائے رکھے ہوئے ہیں کہ وہ دن ضرور آئے گا جب سرحدیں مٹ جائیں گی اور وہ اپنے آباؤ اجداد کے خوابوں کی سرزمین کی طرف واپس لوٹ کر جائیں گے۔ تاریخ کے تاریک گوشوں اور غم زندگی کے سایوں میں کشمیر کے اُن جلا وطن لوگوں کی ایثار و قربانیوں اور گہری اذیتوں کی لا تعداد کہانیاں چھپی ہوئی ہیں جنہوں نے اسلام اور پاکستان کے عشق و محبت اور آزادی کی تلاش میں اپنے گھر بار اور خونی رشتوں کو چھوڑ کر پاکستان ہجرت کی۔ یہ وہی مہاجرین ہیں جو دلوں میں آزادی کشمیر اور تکمیل پاکستان کے بعد واپس اپنے گھروں کو لوٹنے کے خواب دلوں میں سجائے اپنے مرکز محبت و عقیدت پاکستان کی طرف چل پڑے تھے۔ یہ ہجرت اُن کی اپنی جنم بھومی اور خاندان سے جسمانی دوری ہی نہیں تھی بلکہ دلوں کو چیرنے اور روحوں کو گھائل کرنے والی علیحد گی تھی۔ ان با مقصد ہجرت کرنے والے لوگوں نے اپنے گھروں کی عمارتیں ہی نہیں بلکہ اپنے مقدس مسکن اور ماؤں کے شفیق اور مربی آغوشیں بھی چھوڑ دیں جہاں اُن کی ذات، شناخت اور ثقافت پروان چڑھی تھی۔ ان لوگوں نے مظفر آباد سے لے کر کراچی تک مختلف شہروں میں ڈیرے جماکر کشمیر کی آزادی اور اپنے ٹوٹے خاندانی ڈھانچے کے دوبارہ ملاپ کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کر جدو جہد کی۔ یہ مہاجرین پاکستان میں ہر اس آواز پر لبیک کہتے رہے جو آزادی کشمیر کے نام پر اٹھائی گی انہوں نے کشمیر کے نام پر ہر بیان کو پیام آزادی اور ہر اقدام کو اپنے حتمی مقصد کی طرف ایک قدم سمجھا۔ کشمیر میں ان کے منقسم خاندانوں نے ہجر و فراق اور یاس و افسردگی کے ماحول میں امید وصل کے چراغ جلائے رکھے۔ خونیں لکیر کے اس پار کی ہر ماں دریائے جہلم کے کنارے پر آکر اُس کے پانی سے مخاطب ہوتی تھی کہ پاکستان پہنچ کر میرے بیٹے کو میرا اسلام کہنا اور بتانا کہ دیکھو پرندے بھی اپنے گھروں کو لوٹ آتے ہیں بیٹا تم کب آؤ گے؟ تمہاری دید کے انتظار میں میرے سر کے بال سفید، پلکیں جھکی ہیں اور آنکھیں خشک ہو چکی ہیں۔ یہاں پاکستان کے مختلف علاقوں میں ان جلاوطن لوگوں کے دن رات اپنے آبائی وطن کشمیر کے خیالوں اور خوابوں میں گزرتے تھے، کشمیر کی آزادی اور اپنے خاندانوں سے ملاپ کی تڑپ میں اُن کا کرب اور اُن کے آنکھوں سے گرنے والے آنسو ناقابل برداشت اور ناقابل بیان درد کی علامت اور نشانی تھی۔ ان کے چہروں پر جھریاں نہیں درد کی لکیریں تھیں ان کے آنسوں کی بارش آنسو نہیں، آتش چنار کی تپش سے ابلتا ہوا خون تھا جس میں آزادی کی تڑپ واضح تھی کیونکہ اُن کی سوچ و فکر ہمیشہ اس زمین سے جڑی رہتی تھی۔ وادی گل رنگ اور وہاں کے مسکن ان کے دلوں میں منقش ہو گئے تھے جسے وہ اب چھو بھی نہیں سکتے۔ یہ جلاوطن افراد کبھی گھٹا ٹوپ اندھیروں اور کبھی چاند کی مدھم روشنی میں لوگوں سے چھپ کر اپنوں سے جدائی کے غم میں اور آزادی وطن کے لیے آنسو بہاتے تھے۔ وہ اپنے گھروں کو لوٹنے، اپنی ماؤں سے لپٹنے، اپنوں سے ملنے اور اپنے بزرگوں کی قبروں پر کھڑے ہو کر ان کی مٹی کی سوندھی خوشبو سونگھنے کو ترستے رہتے تھے۔ مایوسی اور تنہائی کے ماحول میں وہ اُس زندگی اور مستقبل کے لیے روتے رہتے تھے جو ان کی انگلیوں سے ریت کی طرح سرک گیا تھا۔ ان کے روز و شب کی تصویر یہ رہی کہ یہ لوگ یاس اور افسردگی کے ماحول میں اپنوں سے ملنے کی امید اور آزادی کشمیرکے لیے تڑپتے رہے۔ وقت کی بے رحمی نہ صرف ان جلا وطن لوگوں کے خوابوں کو چکنا چور اور امیدوں کو توڑتی گئی بلکہ ناقابل تلافی دکھ بھی پیچھے چھوڑتی رہی لیکن انہوں نے پھر بھی اپنی امیدوں اور آرزوں کے چراغوں کو روشن رکھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے دل و دماغ میں کشمیر کی آزادی اور اپنوں سے ملنے کی تمنا شدت اختیار کرتی گئی اور ان کی صحت اور سکت بھی جواب دیتی گئی۔ آخر ایک دن تڑپ، امید، آرزو اور جستجو کو موت نے جسم سے بے چین روحوں میں منتقل کیا۔ لیکن افسوس کہ یہ فریب خوردہ لوگ ایک طویل عرصے تک رنج و غم اور پریشانی کے عالم میں رہنے کے باوجود اپنے پیاروں سے ملے بغیر، اپنی ماؤں کی قبروں کو دیکھے بغیر اپنے پیاروں کی زبانوں سے لالہ، کاکا، ٹاٹا جیسی آوازیں سنے بغیر اس دنیا سے رخصت ہو گئے ان کی ناتمام خواہشات ہوا میں معلق اور ان کے خواب آزادی ہمیشہ کے لیے تحلیل ہو گئے۔ اسلام اور پاکستان کے یہ شیدائی فرزندان کشمیر تحریک آزادی کشمیر کے بہت سارے سربستہ راز اور دکھ بھری کہانیاں اپنے سینوں میں چھپائے اس امید کے ساتھ اس دنیا سے چل بسے کہ شاید آنے والے کل کو مسلمانان کشمیر کی آزادی اور بہتری کے لیے کوئی جامع اقدام اٹھایا جائے گا۔

افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوف فساد خلق میں نا گفتہ رہ گئے

آزادی کے ان متوالوں، وقت کے مجاہدوں، متحرک اور باوقار دکھی انسانوں کی جد جہد اور عزم و استقامت کا تذکرے اور تحریکی میراث کو آنے والی نسلوں میں منتقل کرنا ہمارا فرض ہے۔ ان کی محبت، آزادی کی آرزو اور جدائی کا نوحہ جنت نظیر وادی چنار کا ہی نہیں ہم سب کا نوحہ ہے۔ ان نیک لوگوں، ایثار و وفا کے پیکروں، دکھی انسانوں اور وقت کے ماروں کی مضطرب روحیں اپنے لواحقین اور ہم سب سے جدوجہد آزادی (نظریہ) کی میراث اور کشمیر ی مسلمانوں کے تحفظ کے لیے فیصلہ کن اقدامات کا تقاضا کر رہی ہیں۔ یہ دنیا ایک عارضی پڑاؤ ہے جس طرح ہمارے بزرگ آزادی کی حسرت دل میںلیے رخصت ہو گئے، ہمیں بھی ایک دن یہ دنیا چھوڑنی ہے۔ سوال یہ ہے: کیا ہم ان کے خوابوں کی تعبیر کے لیے کچھ کیے بغیر دنیا سے چلے جائیں گے یا اپنی بساط کے مطابق کشمیر کی آزادی کے لیے ہر ممکن کوشش کرچکے ہوں گے، تاکہ روز محشر ان سے ملتے وقت شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اللہ تعالی ان تمام مرحوم مہاجرین اور سب شہداء کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں کشمیر کی آزادی کے لیے نئے عزم و حوصلے کے ساتھ اپنا کردار نبھانے کی توفیق بخشے دے۔ آمین