امریکی صدارتی انتخابات ‘مسلمان مخمصے کا شکار

22

امریکا کا نیا صدر کون ہوگا، ڈونلڈ ٹرمپ یا کملا ہیرس؟ ریپبلکن ٹرمپ اور ڈیموکریٹ کملا میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔روایتی طور پر امریکی مسلمان ڈیموکریٹس کو ووٹ دیتے رہے ہیں ،تاہم گزشتہ کچھ برسوں سے ان کے عقل سے ماورا لبرل ایجنڈے نے (جس میں اسکول کی سطح تک ٹرانس جینڈرزم کا فروغ شامل ہے ) مسلمانوں کو ڈیموکریٹس سے برگشتہ کیا اور نتیجتاً گزشتہ الیکشن میں 35فیصد مسلمانوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا جو ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ اس بار مسلمان ووٹرز کا سب سے بڑا مسئلہ فلسطین میں جاری نسل کشی ہے ، لیکن بدقسمتی سے دونوں بڑی پارٹیاں اسرائیل کی گود میں بیٹھی ہیں۔ صہیونی تنظیم اے آئی پی اے سی امریکی پارلیمان کے ہر رکن کو عملی طور کنٹرول کرتی ہے اور اس کے ساتھ اس تنطیم کا کوئی ہینڈلر شامل ہوتا ہے۔ لہٰذا اسرائیل کی اندھی حمایت میں کسی کے بھی صدر بننے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ گرین پارٹی کی امیدوار جل اسٹائن کھل کر اسرائیل کی مذمت کرتی ہیں اور فوری طور پر فلسطینیوں کی نسل کشی بند کرنے کا مطالبہ کرتی ہیں لیکن لبرٹیرین ہونے کی وجہ سے مادر پدر آزادی کی حمایت کرتی ہیں جو اسلام کے مزاج سے قطعی مطابقت نہیں رکھتا۔ گرین پارٹی ایک بہت چھوٹی پارٹی ہے اور جل اسٹائین کا نام ہر ریاست کے بیلٹ پیپر پر نہیں ہے، لہٰذا ان کے جیتنے کا امکان صفر ہے۔ اس وقت مسلمانوں کا ووٹ 3حصوں میں تقسیم ہے ۔پہلا وہ جو جل اسٹائن کو احتجاج کے طور پر ووٹ دے کر ڈیموکریٹس کو فلسطین میں نسل کشی کی سزا دینا چاہتا ہے۔ خصوصی طور پر ریاست مشی گن میں یہ ووٹ کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں کیوں امریکی الیکشن کا اصل فیصلہ صرف 7ریاستیں کرتی ہیں جہاں کانٹے کا مقابلہ ہوتا ہے اور مشی گن ان میں سے ایک ہے۔ اس گروپ کا کہنا یہ ہے کہ جل اسٹائین کو وہ صرف ایک نکاتی ایجنڈے یعنی فلسطین کی حمایت کی بنیاد پر ووٹ دیں گے۔ دوسرا گروپ جس میں ریاست مشی گن کے کچھ اسلامی مذہبی رہنما شامل ہیں ،ٹرمپ کی اس بنیاد پر حمایت کرتا ہے کہ ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ ٹرمپ فلسطین کے حق میں کیسا ثابت ہوں گے، تاہم ماضی میں انہوں نے کوئی نئی جنگ نہیں شروع کی اور وہ کھل کر لبرل ووک ایجنڈے کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ اس گروپ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ڈیموکریٹس کی بے اعتنائی اور فلسطینی نسل کشی کی سزا ان کو دینا چاہتے ہیں۔ پاکستانیوں کی ایک معقول تعداد عمران خان کی محبت میں اس امید پر ٹرمپ کو ووٹ دے رہی ہے کہ ٹرمپ ان کے محبوب لیڈر کی رہائی کا سبب بن سکتے ہیں۔ تیسرا گروہ جس کی تعداد اب کم ہے وہ ڈیموکریٹس کو محض اس لیے ووٹ دینا چاہتے ہیں کہ وہ سیاسی طور پر اپنے آپ کو سیف زون میں محسوس کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت کے سیاسی مفادات ڈیموکریٹس سے وابستہ ہیں۔ ایک بڑی تعداد ٹرمپ اور اس کے قریبی ساتھیوں کے اسلاموفوبیا پر مبنی بیانات کی وجہ سے دوسری طرف پناہ ڈھونڈتے نظر آتی ہے۔حقیقت یہی ہے کہ ڈیموکریٹس کا تنوع صرف اس حد تک ہے کہ آپ دیکھنے میں مختلف نظر آئیں مگر سوچ آپ کی ایک ہی ہونی چاہیے جو ان کے لبرل ایجنڈے سے مطابقت رکھتی ہو۔ وہ ڈیموکریٹک پارٹی جس نے اپنے کنونشن میں مسلمان ارکان کو اسرائیلی دباؤ کی وجہ سے 2منٹ کی تقریر تک نہ کرنے دی وہ اب جل اسٹائین اور ٹرمپ کی حمایت پر مسلمانوں کو سرزنش کرتے نظر آتے ہیں جن میں سابق صدور اوباما اور بل کلنٹن شامل ہیں ۔ دراصل ان کے یہ لیکچر ان سے مزید بیزاری پیدا کررہے ہیں۔ بہرحال اس وقت 2بڑی پارٹیوں کے ایجنڈے میں فلسطین کی نسل کشی کہیں نظر نہیں آتی۔ ری پبلیکن کا سر فہرست ایجنڈا امریکا میں میکسکو کے بارڈر سے آنے والے غیر ملکی تارکین وطن کو روکنا اور پہلے سے موجود غیر قانونی طور پر مقیم لوگوں کو نکالنا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ڈیموکریٹس کا سر فہرست ایجنڈا اسقاط حمل کی آزادی کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ہے۔ وہ یہ امید کررہے ہیں کہ اس ایجنڈے کی وجہ سے خاتون ووٹرز کی ایک بڑی تعداد ان کو ووٹ دے گی۔ حال ہی میں صومالیہ نژاد امریکی مسلمان کانگریس الہان عمر نے ایک ٹوئٹ کی ہے،جس جو ڈیموکریٹک پارٹی کی رکن ہیں ۔ اس ٹوئٹ میں وہ اپنی 20سالہ بیٹی کی ٹرمپ کے جیتنے کی صورت میں اسقاط حمل کے تحفظ کے بارے میں تشویش کا اظہار کررہی ہیں۔ 2برس قبل ٹرمپ کے منتخب کردہ ججوں نے 1973 ء میں سپریم کورٹ کے اسقاط حمل کی آزادی کے حق میں تاریخی فیصلے کو کالعدم کردیا تھا۔ یہ امریکی عدالتی تاریخ میں ہونے والا ایک ایسا فیصلہ ہے جس نے امریکی ثقافتی پس منظر کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ اس فیصلے نے اسقاط حمل کو امریکا کی تمام 50ریاستوں میں قانونی تحفظ فراہم کیا تھا۔ اس قانون کے ختم ہونے کے بعد اب ہر ریاست اپنے طور پر فیصلہ کر سکتی ہے۔ امریکا کی 13ری پبلیکن ریاستوں میں اس پر یکسر پابندی ہے جبکہ دیگر کچھ ریاستوں نے مختلف مرحلوں تک کے حمل کے اسقاط پر پابندی عائد کی ہے جبکہ 9ڈیموکریٹس ریاستیں ایسی ہیں جن میں کسی مرحلے تک کی کوئی پابندی نہیں یعنی اسقاط کی مکمل آزادی ہے۔ امریکا میں مسلمان اس وقت تذبذبت کا شکار کا نظر آتے ہیں ، لیکن دوسری طرف امریکا کی دونوں بڑی جماعتوں انتخابات میں مسلمانوں کی اہمیت سے غافل نہیں ہیں۔ حال ہی میں ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر انتخابی مہم کے سلسلے میں مسلمانوں کے حق میں بیان دیا،جس میں انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کو ووٹ دیں اور امن واپس لائیں!، عرب اور مسلمان امن چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کملا ہیرس اور ان کی جنگجو کابینہ مشرق وسطیٰ پر حملہ کردے گی اور لاکھوں مسلمانوں کو قتل کردے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کملا ہیرس تیسری عالمی جنگ شروع کرنے کے درپے ہیں۔ امریکی انتخابات کا نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ جو جماعت بھی فاتح ہوگی وہ پہلے سے بڑھ کر اسرائیل کی وفادار ثابت ہوگی۔ ممکن ہے کہ انتخابی مفادات کے پیش نظر کسی نے اب تک اسرائیلی حمایت میں تھوڑا بہت تامل کیا ہو، تاہم نئے دور کی ابتدا میں صہیونیت پرستی کا جادو سر چڑھ کر بولے گا۔