ذیابیطس سے پاکستان میں 30 لاکھ افراد ٹانگیں کٹنے کے خطرے سے دوچار

82
risk of amputation due to diabetes

کراچی: پاکستان میں ذیابیطس کے باعث شدید طبی پیچیدگیاں سامنے آرہی ہیں جہاں تقریباً 30 لاکھ مریض ذیابیطس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے پیر کے زخموں میں مبتلا ہیں، جو بڑھ کر پاؤں اور ٹانگیں کٹنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ اسی طرح 16 سے 20 فیصد افراد کو نظر کے مسائل اور 28 فیصد کو گردوں کی خرابی کا سامنا ہے، جس کے علاج کے لیے اکثر مہنگے ڈائلیسس سیشنز کی ضرورت ہوتی ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 3 کروڑ 30 لاکھ تک پہنچ گئی ہے، اور یہ تعداد حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔

ماہرین نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ ذیابیطس سے بچاؤ اور اس کی پیچیدگیوں سے محفوظ رہنے کے لیے صحت مند طرز زندگی اپنائیں۔یہ اعداد و شمار معروف ذیابیطس ماہر ڈاکٹر زاہد میاں نے عالمی یوم ذیابیطس 2024 کے پیش نظر کراچی یونیورسٹی میڈیکل سینٹر اور ڈسکورنگ ڈائیبیٹیز کے تعاون سے منعقدہ ایک سیمینار کے دوران پیش کیے۔

ڈاکٹر زاہد میاں نے بتایا کہ روزانہ تقریباً 35 افراد ذیابیطس کی پیچیدگیوں کے باعث اپنا ایک پاؤں یا ٹانگ کٹوا بیٹھتے ہیں، اور ہر سال تقریباً 6 لاکھ افراد کو پاؤں اور ٹانگیں کٹوانا پڑجاتی ہیں۔ انہوں نے ملک بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کے لیے خاص طور پر پیروں کے زخموں کے علاج کے مراکز کے قیام کی ضرورت پر زور دیا، جو کہ حکومتی اور نجی شعبے میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

انہوں نے اس مسئلے کے مالی پہلو پر بھی بات کی اور بتایا کہ ڈائلیسس کا ایک سیشن کم از کم 5,000 روپے کا ہوتا ہے، اور جن مریضوں کو ہفتے میں تین بار سیشن کی ضرورت ہوتی ہے، ان کا ماہانہ خرچ 60,000 روپے تک پہنچ جاتا ہے، جس کی وجہ سے کئی خاندان شدید مالی مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مزید برآں، پاکستان میں ذیابیطس ماہانہ ہزاروں افراد کی جان لے رہی ہے، اور اس کی شرح اموات دیگر بیماریوں، بشمول متعدی امراض سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔

کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے ذیابیطس سے نمٹنے کے لیے احتیاطی تدابیر پر زور دیا اور کہا کہ اگر موجودہ صورتحال کو نہ بدلا گیا تو پاکستان دنیا بھر میں ذیابیطس کے سب سے زیادہ مریض رکھنے والے ممالک میں سر فہرست ہو سکتا ہے۔

انہوں نے خود علاج کے بجائے ڈاکٹروں کی ہدایات کے مطابق ادویات کے استعمال پر زور دیا اور کہا کہ یونیورسٹیاں خصوصاً کراچی یونیورسٹی اس سلسلے میں عوامی شعور بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔

کراچی یونیورسٹی کی ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم نے کہا کہ غیر صحت مند طرز زندگی اور شعور کی کمی کی وجہ سے بہت سے لوگ میڈیکل علاج کے بجائے دیسی علاج پر انحصار کرتے ہیں۔ انہوں نے ذیابیطس کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے تعلیم کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا۔

شعبہ نفسیات کراچی یونیورسٹی کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر انیلا عنبر ملک نے ذیابیطس کے نفسیاتی اثرات پر بات کی اور کہا کہ یہ بیماری صرف مریض کو ہی نہیں بلکہ اس کے خاندان کو بھی متاثر کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ علاج سے پہلے صحت مند طرز زندگی کو اپنانا ضروری ہے۔

جامعہ کراچی کے میڈیکل آفیسر ڈاکٹر اکمل وحید نے ذیابیطس کے علاج کو “آرٹ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس بیماری کے بڑھتے ہوئے کیسز دیکھ کر فوری اقدام کی ضرورت ہے تاکہ اسے قومی صحت کے بحران سے بچایا جا سکے۔

ڈسکورنگ ڈائیبیٹیز پروجیکٹ کے عہدیداروں نے کہا کہ انہوں نے ہزاروں ایسے لوگوں کی تشخیص میں مدد کی جو اپنی صحت کے بارے میں لاعلم تھے اور انہیں علاج کے لیے ماہرین صحت سے رابطہ کرنے میں مدد فراہم کی۔

ڈسکورنگ ڈائبٹیز کے رؤف امام نے بتایا کہ ان کے پروجیکٹ میں ایک چیٹ بوٹ بھی شامل ہے جو مصنوعی ذہانت کے ذریعے لوگوں کی صحت کے مسائل کے بارے میں آگاہی پیدا کر رہا ہے اور ان کی علامات جاننے کے بعد انہیں میڈیکل مدد لینے پر آمادہ کر رہا ہے۔