گڑھا کھودا کس کے لیے گرا کون

309

ہم بچپن ہی سے یہ بات سنتے چلے آرہے ہیں کہ جو کوئی دوسروں کے لیے گڑھا کھودتا ہے وہ خود اس گڑھے میں گرجاتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنے کسی کام کے لیے کسی کو اپنا سہولت کار بناتے ہیں بعد میں معلوم ہوا کہ وہی سب سے بڑی مصیبت بن گیا۔ اسی بات کو ایک اور زاویے سے دیکھا جا سکتا ہے کہ اکثر ہم کسی پر بہت زیادہ اعتماد قائم کرلیتے ہیں اور پھر وہی ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ بہ نظر غائر دیکھا جائے تو یہ تمام باتیں سیدنا علیؓ کے اس قول کی تشریح ہے کہ جس میں آپ نے فرمایا کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔ 26 ویں ترمیم کا پورے مہینے جتنا شور وغوغا رہا اس میں کوئی اور بات سنائی ہی نہیں دے رہی تھی۔ بالآخر یہ ترمیم منظور ہوگئی۔ اس ترمیم سے ہمارا حکمران طبقہ یا حکمرانوں کا حکمران طبقہ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا کیا وہ سب حاصل ہو گئے؟۔ ابتدا میں جب اس کا مسودہ مولانا فضل الرحمن کے سامنے آیا تو یہ آئینی ترمیم آہنی ترمیم لگ رہی تھی اسی بات کو مولانا نے ایک دوسرے پیرائے میں کہا کہ ہم نے چھبیسویں ترمیم کے کالے ناگ سے اس کا زہر نکال دیا۔ بہر حال اس ترمیم کے 56 نکات 22 نکات تک آکر محدود ہوگئے۔ اس ترمیم کے ظاہری مقاصد تو حکومت کی طرف سے بہت کچھ بیان کیے جارہے تھے جس میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس ترمیم کے تحت آئینی عدالتیں قائم ہوں گی تو کم و بیش جو ساٹھ ہزار مقدمات التویٰ میں پڑے ہوئے ہیں اور متاثرین برسوں سے انصاف کے انتظار میں انصاف کے ایوانوں میں چکر لگا لگا کر بڈھے ہوگئے اور کچھ تو دنیا سے ہی چلے گئے ان کی داد رسی ہوجائے گی۔

اس ترمیم کے درپردہ جو دیگر مقاصد بیان کیے جارہے تھے وہ کچھ اور تھے ایک بات تو یہ کہی جارہی تھی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ حکومت کے پسندیدہ جج ہیں اس لیے ان کو روکنے کے لیے یہ ترمیم لائی جارہی ہے اسی لیے بلاول صاحب بے چین ہو رہے تھے کہ کسی طرح 25 اکتوبر سے پہلے یہ منظور ہو جائے۔ دوسری بات جو بحث و مباحثہ میں زبانوں پر آرہی تھی وہ جسٹس منصور کو کسی طرح چیف جسٹس نہیں بننے دینا ہے یہ حکومت مخالف جج ہیں اگر یہ چیف جسٹس بن گئے تو 8 فروری الیکشن کے حوالے سے پٹیشن کی سماعت میں اگر اس کی تحقیقات ہوئی اور اگر پورا انتخاب ہی کالعدم ہوگیا تو یہ فارم 47 والی حکومت دھڑام سے گر پڑے گی لہٰذا ان کو کسی صورت چیف جسٹس نہیں بننے دینا ہے۔ چونکہ سینیارٹی کے لحاظ سے جسٹس منصور کو چیف جسٹس بننا تھا۔ لیکن اس ترمیم میں چیف جسٹس کے تقرر کے طریقہ کار کو تبدیل کردیا گیا اور وہ اس طرح کہ تین سینئر ججوں کے نام ایک پارلیمانی کمیٹی کو آئوٹ گوئنگ چیف جسٹس بھیجیں گے وہ کمیٹی ان میں سے کسی ایک کا تقرر کرے گی۔ دیکھا جائے تو یہ سارا میلہ ہی اس لیے سجایا گیا تھا کہ جسٹس منصور شاہ کی چیف کے منصب کی چادر چرالی جائے۔ بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا طریقہ یہ طے کیا گیا کہ قومی اسمبلی میں پارٹی ارکان کی تعداد کی مناسبت سے پارلیمانی کمیٹی کی نشستیں الاٹ ہوں گی چنانچہ اس پارلیمانی کمیٹی میں پانچ ارکان ن لیگ سے تین پی پی پی سے اور تین تحریک انصاف سے اور ایک رکن جے یو آئی سے لیا گیا اور یہ بات بھی طے کی گئی کہ دو تہائی اکثریت سے چیف جسٹس کے تقرر کا فیصلہ ہوگا۔ جسٹس فائز عیسیٰ تو نہیں رکے انہوں نے اپنے وقت پر ریٹائرمنٹ لے لی لیکن بعض باخبر صحافیوں کی رائے ہے کہ اس چھبیسویں ترمیم کا جھنجھنا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہی حکومت کے ہاتھ میں پکڑایا تھا۔ یہ انہوں نے خود کیا یا کسی کے کہنے پر اس چکر میں نہ پڑا جائے تو بہتر ہے۔

پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں تحریک انصاف نے بائیکاٹ کیا اس نے اپنی پارٹی کے ارکان کے نام تو بھیج دیے تھے لیکن وہ اجلاس میں شریک نہیں ہوئے اگر وہ ہو بھی جاتے تو فیصلے پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس لیے کہ جے یو آئی کے کامران مرتضیٰ کا ایک ووٹ صرف منصور شاہ کے حق میں پڑا باقی ن لیگ اور پی پی پی کے مجموعی 8 ووٹ جسٹس یحییٰ آفریدی کے حق میں آئے اور اس طرح یحییٰ آفریدی عدالت عظمیٰ کے تیسویں چیف جسٹس بن گئے۔ بارہ جولائی کو جو مخصوص نشستوں کا فیصلہ آیا تھا اس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے آٹھ ججوں سے ہٹ کر فیصلے کی مخالفت کی تھی۔ اسی لیے اتحادی حکومت کے نزدیک جسٹس یحییٰ آفریدی ترجیح اوّل بن گئے اور چونکہ سینیارٹی کے لحاظ سے یہ تیسرے نمبر پر تھے اس لیے نئی ترمیم کی برکت سے یہ چیف جسٹس کے تقرر کی دوڑ میں شامل ہوگئے اور پھر جیت بھی گئے۔ حکومت وقتی طور پر خوش ہوگئی کہ اس کے سر پر سے وہ تلوار ہٹ گئی کہ جس کے نتیجے میں اس کی حکومت لپیٹ دینے خطرات پیدا ہوگئے تھے۔ لیکن یحییٰ آفریدی کے کچھ فیصلوں پر اور کچھ دیگر چیزوں کی وجہ سے حکمرانوں کے منہ کا مزا کچھ کڑوا کڑوا سے ہوگیا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کے تقرر کے بعد جسٹس منصور شاہ اور جسٹس منیب جذباتی رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستعفی ہو جائیں گے اور آئندہ کے لیے ان کے بعد جو جسٹس حضرات کی فہرست ہے وہ سب حکومتی پسند کے لوگ ہیں چونکہ اب ترمیم میں چیف جسٹس کی مدت تین سال کردی گئی ہے اس لیے 2027 میں اس وقت جو سینئر ہوں گے ان کے نام پارلیمانی کمیٹی کو بھیجیں جائیں گے اب جو سینیارٹی فہرست تشکیل دی گئی ہے اس میں ان دونوں ججوں کے نام ازخود فہرست میں آجائیں گے خیر یہ تو دلی دور است ابھی تو کھیل شروع ہوا ابھی تو پلوں کے نیچے سے پتا نہیں کتنا پانی بہہ جائے گا۔ دوسرا جھٹکا حکومت کو یہ لگا کہ پہلے بنچ کی تشکیل اور کتنے اور کون سے مقدمات کس بنچ میں جائیں گے چیف جسٹس کرتے تھے۔ جسٹس بندیال جب چیف تھے تو وہ یہ فیصلے خود کرتے تھے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس پر شدید اعتراض تھا اور اس وجہ سے حکومت کا اپنا عمل دخل بھی بنچ کی تشکیل میں ختم ہوکر رہ گیا تھا۔ اس لیے حکومت نے ایک ایکٹ منظور کیا جس کے تحت ایک پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی بنائی جائے جس میں چیف جسٹس کے علاوہ دو سینئر جج ہوں گے یہ تینوں مل کر بنچ کی تشکیل اور مقدمات کے الاٹ کا فیصلہ کریں گے۔ جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف بنے تو ان کے ساتھ جسٹس منصور شاہ اور جسٹس منیب پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے ارکان بن گئے اب یہاں یہ مشکل آگئی کہ جسٹس منصور اور جسٹس منیب کی اکثریتی رائے سے بنچوں کی تشکیل ہونے لگی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس عمل سے ایک لحاظ سے الگ تھلگ ہوگئے پھر ان کو بااختیار بنانے کے لیے حکومت نے اسمبلی سے ایک اور قانون منظور کرایا کہ پریکٹس اینڈپرسیجر کمیٹی میں ایک سینئر جج اور ایک کوئی بھی جونیر جج چیف جسٹس کی صوابدید پر کمیٹی کا رکن ہوسکتا ہے جیسے ہی یہ بل منظور ہوا جسٹس فائز عیسیٰ نے جسٹس منیب کی جگہ جسٹس امین کو اس کا رکن بنا لیا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے دو مزید کام اور ایسے کیے جس کی وجہ اتحادی حکومت فکر و تشویش میں مبتلا ہوگئی ہے پہلی بات تو یہ کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں دو سینئر ججوں یعنی جسٹس منصور اور جسٹس منیب کو شامل کرلیا دوسرا کا م یہ ہوا کہ فل کورٹ اجلاس جو جسٹس فائز عیسیٰ کئی ججوں کے مطالبے کے باوجود نہیں بلا رہے تھے وہ جسٹس یحییٰ نے بلا لیا اور جسٹس منصور جو عمرے کے لیے گئے ہوئے نے ویڈیو لنک کے ذریعے اس اجلاس میں شرکت کی اور اس میں تمام ججوں نے متفقہ طور پر جسٹس منصور کی وہ تجاویز اور سفارشات منظور کرلیں جو کچھ عرصے قبل انہوں نے عدالت عظمیٰ پر سے مقدمات کا بوجھ ختم کرنے کے لیے دی تھیں۔

ایک پروگرام میں معروف صحافی مظہر عباس بتارہے تھے کہ جب بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی پر دستوری پابندی لیے حیدرآبد ٹریبونل بنایا تو اس وقت حکومت کو یہ سن گن ملی کے اس کیس کو لڑنے کے لیے باہر سے کوئی وکیل آئے گا تو اسی وقت بھٹو نے اسمبلی میں اپنی دوتہائی اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک ترمیم منظور کرائی کہ ملک میں کسی بھی قسم کے مقدمے کے سلسلے میں ملک سے باہر سے کسی وکیل کی خدمات نہیں لی جاسکتی۔ پھر دیکھیے کہ جب بھٹو کا مقدمہ عدالت عظمیٰ میں چل رہا تھا تو باہر کے کسی وکیل کا تعین بھی ہوگیا تھا لیکن بھٹو کی اپنی کی ہوئی یہی ترمیم آڑے آگئی اور پھر بھٹو کا کیس لڑنے کے لیے باہر سے کوئی وکیل نہیں آسکا۔ اسی کو کہتے ہیں کہ دوسروں کے لیے گڑھا کھودنے والا خود ہی اس میں گر جاتا ہے۔