آئینی ترمیم کیخلاف جماعت اسلامی کی سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر، فل کورٹ تشکیل دینے کا مطالبہ

131
Immediate relief on electricity bills

کراچی:امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے جماعت اسلامی کی طرف سے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کیے جانے کے بعد مطالبہ کیا ہے کہ پٹیشن کی سماعت فل کورٹ بینچ میں کی جائے اور سماعت کی کارروائی اسی طرح براہ ِ راست دکھائی جائے جس طرح اس سے پہلے دکھائی جاتی رہی ہے۔

ادارہ نور حق میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ  فارم 47کی بنیاد پر بننے والی اسمبلی کو یہ اختیار نہیں کہ 1973ء کے متفقہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو ڈھا دے۔ 26ویں آئینی ترمیم سے عدلیہ پر شب ِ خون اور ملک کے آئین اور جمہوری آزادیوں پر کاری وار کیا گیا ہے، اس آئینی ترمیم کو ختم ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی قوم کی بھرپور اور حقیقی ترجمانی کرے گی۔ پی آئی اے کی نجکاری ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن گئی ہے، نواز شریف اپنی بیٹی کو مشورہ دے رہے ہیں کہ پی آئی اے کو خرید کر پنجاب کے تحت چلایا جائے۔ علی امین گنڈاپور بھی کے پی کے کے تحت پی آئی اے چلانے کی باتیں کر رہے ہیں، قوم کے ساتھ یہ مذاق بند کیا جائے۔ نواز شریف بتائیں کہ 40سال میں پی آئی اے کا بیڑا غرق کس نے کیا؟۔

حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ  پی ٹی آئی دعویٰ کرتی تھی کہ قومی اداروں کو چلائیں گے، گنڈا پور بتائیں کہ پی ٹی آئی نے اپنے ساڑھے 3برس میں اسے کیوں نہیں چلایا؟ پاکستان اسٹیل مل کو اپنے پیروں پر کیوں نہیں کھڑا کیا گیا؟ قومی اداروں سے بڑے بوجھ تو ہمارے حکمران ہیں، صدر اور وزیر اعظم کے طیاروں کی مینٹی نینس کے لیے 1.75ارب روپے منظور کیے گئے ہیں۔

امیر جماعت کا کہنا تھا کہ حکمرانوں کی سرپرستی میں چلنے والی آئی پی پیز کو ایک سال میں 2ہزار ارب روپے سے زائد ادا کیے گئے اور وہ بجلی جو تیار ہی نہیں ہوئی اور نہ ہم نے استعمال کی ا س کے پیسے بھی دیے گئے۔  ان آئی پی پیز میں52فیصد حکومت کی ہیں، آئی پی پیز انکم ٹیکس سے مستشنیٰ کیوں ہیں؟کے الیکٹرک کو7سالہ جنریشن ٹیرف ڈالربیسڈ اور ”Take or Pay“ پر دیا گیا ہے جوایک آئی پی پی کی ہی بدترین شکل ہے۔

اس موقع پر امیرجماعت اسلامی کراچی منعم ظفرخان،نائب امیر و کے ایم سی میں اپوزیشن لیڈر سیف الدین ایڈووکیٹ،نائب امرا کراچی راجا عارف سلطان،مسلم پرویز، ڈپٹی سیکرٹری قاضی صدرالدین، پبلک ایڈ کمیٹی کے سیکرٹری نجیب ایوبی،نائب صدر عمران شاہد،ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات صہیب احمد ودیگر بھی موجود تھے۔

حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ ججوں کی تعیناتی کا معاملہ سنیارٹی کے حوالے سے طے ہوچکا تھا،مسئلہ یہ نہیں کہ ایکس کون، وائی کون اور زیڈ کون، مسئلہ یہ ہے کہ یہ طریقہ کار ہی غلط ہے۔ اس طریقے سے حکومت نے عدلیہ کو کنٹرول کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنی گرفت کو بڑھا کر عدلیہ کو سیاسی بنادیا ہے،اس ترمیم میں خاص بات یہ ہے کہ چند ووٹ ایسے بھی ہیں جوان کے نہیں تھے ان لوگوں کو توڑا اور خریدا گیا تھا،اس کا مطلب ہے کہ کرپشن کے ذریعے سے حمایت حاصل کی گئی اور وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں ہیں،وفاداریاں تبدیل کرکے جوبھی قانون سازی کی جائے گی،اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ قومی اداروں کو چلانا اور ان کی کرپشن ختم کرنا بھی حکومت کی ذمے داری ہے۔ اس لیے قومی اداروں کی لوٹ سیل ہمیں منظور نہیں،کے الیکٹرک کوبھی کھمبوں کی قیمت کے برابر فروخت کیا گیا تھا۔ 1.65پیسے کا اس کا شیئرزفروخت کیاگیا تھا،جبکہ 10 روپے سے زائد اس کی قیمت تھی،18لاکھ صارفین سے اب 38 لاکھ صارفین ہوگئے ہیں اورپیداواری یونٹ 15سے 20فیصدکم ہوگئے ہیں۔

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ کے الیکٹرک قومی اداروں کانادہندہ بن گیا ہے،اس کاجواب کون دے گا؟سوائے جماعت اسلامی کے کوئی بھی سیاسی جماعت کراچی کے عوام کانیپرا میں مقدمہ نہیں لڑتی۔ کے الیکٹرک کے 7سالہ ڈالربیسڈ جنریشن ٹیرف کے ذریعے کراچی کے عوام سے اب مزید لوٹ مار کی جائے گی۔یہ ہے حکمرانوں کی اندھی نجکاری۔

حافظ نعیم الرحمن نے مزید کہا کہ حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کے لیے Bidکی تو پہلے 5، 6 لوگ اس میں شامل ہوئے، بعد میں سب with draw کرگئے اور ایک پارٹی رہ گئی جس نے10 ارب روپے لگائے تھے،جب کہ پی آئی اے کے اثاثہ جات ہی 152ارب روپے کے ہیں۔ اس کی رائیلٹی کی مد کی رقم 202ارب اور قابل وصول 16 سے 17ارب روپے بنتے ہیں۔7100مستقل اور 2400ڈیلی ویجز کے ملازمین ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جوحکمران اس وقت ملک پر قابض ہیں، انہوں نے ہی پاکستان کے اداروں کو تباہ کیا ہے،2008میں پاکستان اسٹیل ایک منافع بخش ادارہ تھا،پھریہ خسارے میں کیوں گیا،نوازشریف بتائیں کہ انہوں نے پاکستان اسٹیل کی گیس کیوں بندکی تھی، قومی اداروں کو چلانا حکومت کا ہی کام ہے، اصل وجہ حکمرانوں کی کرپشن ہے۔اگریہ قومی ملکیتی ادارے حکومت پر بوجھ ہیں تویہ جو آئی پی پیز کا بوجھ ہے ان سے نجات کے لیے حکمرانوں نے کیاکیا؟

امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا کہ 2 ہزار ارب روپے سے زیادہ قوم نے ایک سال میں اداکیے ہیں ان آئی پی پیز کو‘یہ آئی پی پیز پرائیویٹائزڈہیں اور ان کی پرائیوٹائزیشن بھی عجیب ہے کہ ان میں52فیصد حکومت کی ہیں،اور پھر یہ لوگوں کے شیئرز لیتے ہیں اور کرپشن کرتے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستانی معیشت تباہ ہورہی ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟

حافظ نعیم نے کہا کہ گزشتہ روز کراچی میں بیک وقت 3 جگہ الخدمت کے پروگرام بنو قابل کا ایپٹی ٹیوڈ ٹیسٹ منعقد ہوا،جس میں کراچی کے ہزاروں طلبہ و طالبات نے حصہ لیا،گزشتہ ڈیڑھ سال میں50 ہزار سے زائد طلبا و طالبات کو فری آئی ٹی کورسز کروائے گئے ہیں اور ان کوfacilitate بھی کیا گیا کہ ان کو روزگار ملے اور بہت سے نوجوان اپناکام بھی کررہے ہیں، فری لانسر بنے ہوئے ہیں، اور مختلف جگہوں پر ملازمت بھی کررہے ہیں۔ یہ اب ایک نیشنل پراجیکٹ بن گیا ہے،7نومبر کو لاہور میں پور ے پاکستان کے طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کے لیے فری آئی ٹی اسکالر شپ کی لانچنگ کی جارہی ہے۔