لگنا قدرتی بریک کا۔۔

318

قیام پاکستان کے فوری بعد دستور سازی ایک اہم مسئلہ تھا جس کے لیے قوم بھی پریشان تھی اور اس وقت کے لیڈر بھی فکر مند تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو زیادہ موقع ہی نہیں مل سکا ان کی زندگی ہی نے وفا نہ کی ان کے بعد تحریک پاکستان کے مخلص رہنما نواب زادہ لیاقت علی خان تین سال بر سر اقتدار رہے پھر انہیں بھی شہید کردیا گیا۔ لیاقت علی مرحوم کے زمانے میں دستور سازی پر تیزی سے پیش رفت جاری تھی لیکن ان کی شہادت کے بعد یہ مسئلہ سستی کا شکار ہوگیا۔ ہماری اس وقت کی قیادتوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی کی ایک نہ رکنے والی جنگ شروع ہو گئی۔ یہ ایک چومکھی لڑائی تھی جس میں ایک طرف ہمارے سیاستدان تھے تو دوسری طرف ہماری فوج تھی تیسری طرف اس وقت کی بیورو کریسی تھی تو چوتھی طرف کچھ نہ کچھ کردار بلکہ بڑا اہم کردار ہماری عدلیہ کا بھی رہا ہے۔ سب ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے اور خود اقتدار پر قابض ہونے کی ناکام کوشش کرتے۔ ان چاروں فریقوں میں جو طاقتور تھا وہ۔۔۔ وہ فریق تھا جس کے پاس بندوق تھی اور بالآخر وہی فریق کامیاب ہوا۔ اور پھر اکتوبر 1958 میں مارشل لا لگ گیا۔ اکتوبر 1951 میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سے اکتوبر 1958 کے درمیانی سات سال کے عرصے میں ہمارے سیاستدانوں اور اداروں کی یہ جنگ اتنی آگے بڑھی کے لوگ ان محلاتی سازشوں سے تنگ آگئے۔ ویسے تو مارشل لا کوئی اچھی چیز نہیں ہوتی ایک دفعہ اگر یہ کہیں آجائے تو پھر یہ کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ اپنی بالا دستی قائم رکھنے کی تگ و دو کرتا رہتا ہے۔ ایک ناپسندیدہ عمل ہونے کے باوجود اس وقت پاکستانی عوام نے اس کو ویلکم کیا ہم اپنے بچپن میں اپنے بزرگوں کے منہ سے اس مارشل لا کی تعریف ہی سنتے رہتے تھے یہ تو جب بڑے ہوکر ملک کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ ملک کے سیاسی، سماجی، مذہبی اور اقتصادی مستقبل کے لیے کتنا خطرناک ثابت ہوا۔

میں جو نکتہ یہاں واضح کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جب کوئی فرد، گروہ ادارہ، معاشرہ یا قوم حد سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہے اور بار بار اپنی قائم کی ہوئی حدود کو کراس کرتی ہے تو پھر قدرت کی طرف سے اس میں بریک لگ جاتی ہے۔ وہ بریک لگتی تو افراد کے ہی ہاتھوں سے، لیکن ملک کی بہت بڑی اکثریت اس ناپسندیدہ عمل کو حالات کا جبر سمجھ کر قبول کرلیتی ہے ملکی تاریخ میں ایسی بیش تر مثالیں موجود ہیں۔ پہلی مثال تو وہی جو اوپر دی گئی ہے۔ جنرل ایوب کے مارشل لا کو بتداء میں تو بادل نا خواستہ بڑی پذیرائی ملی، کچھ عرصے تک عوامی نوعیت کے اصلاحی اقدامات بھی لوگوں کے اطمینان کا باعث بنے۔ لیکن جب حکمران تا حیات حکمرانی کا خواب دیکھنے لگیں اور وہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگے کہ ملک میں اگر کوئی اور اس سے زیادہ ذہین ہوتا تو پھر وہی ملک کا سربراہ ہوتا اس لیے مجھے اللہ نے پیدا ہی حکمرانی کے لیے کیا ہے۔ اس لیے بہت اچھے کام کرنے کے باوجود ملک میں آمریت کو طول دینا اور اپنی مخالف ہر آواز کو دبا کر رکھنے کی مسلسل کوشش کرنا، ملک میں گھٹن کا ماحول پیدا کرنا اور عوامی جذبات کو ریاستی طاقت سے کچلتے رہنا یہ سلسلہ جب اپنی حدود کراس کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہی ہوتا ہے جو جنرل ایوب خان کے ساتھ ہوا ان کے خلاف زبردست تحریک اٹھی کہ ایک دفعہ ایوب خان ان دنوں اپنے سمدھی کے گھر بیٹھے تھے کہ ان کی چھوٹی سی نواسی ایک وہ نعرہ لگاتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی جو اس وقت پوری قوم کی زبان پر تھا یعنی ایوب… ہائے ہائے سمدھی نے اپنی پوتی کو ڈانٹا ایوب خان نے ان کو روک دیا اور کہا کہ یہ نعرہ تو اس وقت پوری قوم لگارہی ہے پھر یہ ہوا کہ ایوب خان اپنے دستور کے مطابق اقتدار اسمبلی کے اسپیکر کو دینے کے بجائے جنرل یحییٰ خان کے سپرد کرگئے لیکن قوم اس وقت اتنی عاجز تھی کہ اس نے بہ امر مجبوری یحییٰ کو بھی خوش آمدید کہا۔ یہ عمل بھی اپنی حدود کراس کرتی ہوئی آمریت کے سامنے قدرتی بریک ثابت ہوا۔

ملک ٹوٹنے کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو آدھے پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ اگر آپ اس کو یوں کہہ لیں کہ اپنے اقتدار کی خاطر انہوں نے ملک کا ٹوٹنا گوارہ کرلیا لیکن انتخابات میں جیتنے والی اکثریت جماعت کو

اقتدار دینے پر آمادہ نہیں ہوئے تو بات ایک ہی سمجھی جائے گی۔ بھٹو صاحب نے اپنے دور میں اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کی، ایٹم بم بنانے کی بنیاد رکھی اور اس کا آغاز کیا، قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا ان سب اچھے کاموں کے باوجود ان کو تا حیات سربراہ مملکت رکھنے پر قوم تیار نہیں تھی۔ بلکہ پاکستانی قوم کو بھٹو کو بھی ملک ٹوٹنے کا ذمہ دار سمجھتی تھی قوم کے ان ہی جذبات کو بھانپتے ہوئے بھٹو نے سقوط مشرقی پاکستان کی وجوہات جاننے کے لیے حمود الرحمن کمیشن قائم کیا لیکن اپنے دور میں اس کمیشن کی رپورٹ کو پبلک نہیں کیا دوسرا کام یہ کیا کہ اس رپورٹ میں جو اقدامات تجویز کیے گئے تھے ان پر عملدرآمد نہیں کیا اس لیے اس کی زد کچھ ان کی اپنی ذات پر بھی پڑتی تھی۔ کئی برسوں بعد یہ رپورٹ ہندوستان کے ایک اخبار میں شائع ہوئی تھی۔ بھٹو کے خلاف قوم کے دل و دماغ میں سقوط ڈھاکا کا غم تو پہلے ہی سے موجود تھا لیکن ان کے ظالمانہ اور آمرانہ اقدامات نے قوم کے اندر نفرت کو اور بڑھا دیا اور پھر یہ نفرت کی چنگاری اس وقت شعلہ بن کر بھڑک اٹھی جب بھٹو نے انتخابات میں زبر دست دھاندلی کرکے اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی۔ انتخابات میں دھاندلی کے خلاف جو دوبارہ انتخاب کی تحریک اٹھی وہ جلد ہی تحریک نظام مصطفی میں تبدیل ہوگئی، اور پھر ایک رات بھٹو کو معزول کردیا گیا یہ حد سے پھیلی ہوئی خواہش اقتدار کے سامنے ایک قدرتی بریک تھی پھر جنرل ضیاء الحق آئے انہوں نے پہلے 90 دن میں الیکشن کرانے کا وعدہ کیا پھر ان دنوں میں اقتدار کا چسکا ایسا لگا کہ پہلے احتساب پھر انتخاب کے نعرے لگوائے گئے انتخابات ملتوی ہوگئے اور بھٹو کو عدالت سے پھانسی دلوائی گئی عوام کی جمہوری خواہش پوری کرنے کے لیے غیر جماعتی انتخابات کروائے جو منتقلی اقتدار کے لیے نہیں بلکہ شراکت اقتدار کے لیے تھے پھر پورے ملک کی بلدیات سے اپنے حق میں تا حیات صدر رہنے کی قراردادیں منظور کروائی گئیں کراچی میں جماعت اسلامی کے میئر عبدالستار افغانی نے یہ قرارداد ایوان میں پیش ہی نہیں

ہونے دی کچھ عرصے بعد ان کو بھی سزا دی گئی کہ بلدیہ کراچی توڑ دی گئی اور افغانی صاحب کو ان کے سو ساتھیوں سمیت جیل بھیج دیا گیا پھر شہر کراچی میں جماعت اسلامی کو کارنر کرنے کے لیے ایم کیو ایم کو کھلی چھوٹ دی گئی۔ پھر اس خواہش پر اگست 1988 کے حادثے نے بریک لگادی۔

1986 سے 2016 تک کا ایم کیو ایم کا ریاست کی پشت پناہی کی وجہ سے دہشت گردی سے بھرپور دور رہا۔ کراچی بوری بند لاشوں کا شہر بن گیا اندھے قتل ہونے لگے کوئی مجرم نہیں پکڑا جاتا اپنی تنظیم سے منحرف ہونے والوں کو خود ہی قتل کیا جاتا خود ہی اس کے احتجاج میں شہر بند کراتے خود ہی اس کا جنازہ اٹھاتے اور پھر خود ہی دکانداروں سے چاول اور گوشت لے کر اس کا چالیسواں کیا جاتا یہ سلسلہ جب بہت آگے بڑھا تو ایک قدرتی بریک ماورائے عدالت قتل کا سامنے آیا ریاست کا کہنا یہ تھا کہ قتل کرنے والوں کے خلاف کوئی گواہی دینے پر خوف کے مارے آمادہ نہیں ہوتا اس لیے پوری دنیا جانتی ہے کہ یہ کرمنلز ہیں اور انہوں نے ایک نہیں دو نہیں بے شمار معصوم اور بے گناہ لوگوں کے قتل کیے ہیں اس لیے انہیں اگر پولیس مقابلے میں مار دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی نصیر اللہ بابر وزیر داخلہ تھے اس دور میں یہ ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ تواتر سے ہوتا رہا اسی زمانے ایک شعر بہت مشہور ہوا تھا کہ ماورائے انصاف بھی قدرت کا انصاف ہوتا ہے۔ کوئی اپنے بچوں سے جا کہ کہہ دے کہ ک سے کربلا بھی ہوتا ہے۔ یہ شعر جماعت اسلامی کے رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی پروفیسر عثمان رمز کا ہے۔ ایم کیو ایم کی دہشت گردی بڑھتی رہی تا آنکہ 2016 میں ایک تقریر میں الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف نعرے لگوائے اور اپھر اس طرح اس دہشت گردی پر بھی ایک قدرتی بریک لگ گیا۔

مضمون طویل ہو جائے گا مثالیں تو اور بھی بہت ہیں لیکن حال ہی میں جو 26 ویں ترمیم منظور ہوئی ہے اس کے بارے میں ایک رائے یہ ہے کہ ہماری عدلیہ جس کے کریڈٹ میں بہت اچھے اور تاریخی فیصلے بھی ہیں لیکن بعض حوالوں سے ہماری عدلیہ بھی اپنی حدود کراس کررہی تھی اس لیے یہ ترمیم۔ ترمیم نہیں ایک قدرتی بریک ہے۔