کراچی والے چور، نشئی اور ذہنی مریض

433

اگر آپ اپنے آپ کو چور، نشے کا عادی اور ذہنی مریض قرار نہیں دلوانا چاہتے تو ایک بات کا خیال رکھیں کہ کبھی بارش کے دوران گھر ہی سے نہ نکلیں، اور نکلیں تو یہ بات یقینی بناکر نکلیں کہ راستے میں کے الیکٹرک کا کوئی پول یا تار تو نہیں گزر رہا کیونکہ اگر آپ خدانخواستہ کسی وجہ سے اندھیرے یا حکومت سندھ کے زیر اہتمام سڑکوں کے کسی گڑھے میں جاگرے اور اس گڑھے میں کے الیکٹرک کا تار گرا ہوا ہو اور اس سے آپ کی یا آپ کے کسی پیارے کی خدانخواستہ موت ہوجائے تو مرنے والا سرٹیفائڈ چور، نشے کا عادی یا ذہنی مریض ثابت ہوگا، کیونکہ کے الیکٹرک نے سروس ایریا میں کرنٹ لگنے سے 33 افراد کی ہلاکت کی رپورٹ نیپرا میں جمع کرادی ہے اور مرنے والوں کو چور، نشئی اور ذہنی مریض قرار دیا ہے جبکہ بہت سے لوگوں کو نامعلوم بھی قرار دیدیا ہے۔ دیگرتفصیلات کے مطابق کے الیکٹرک نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ ذہنی مریض دلدار 11 کے وی کے کھمبے پر چڑھنے سے جاں بحق ہوا۔ کراچی میں ویسٹ وہارف میں کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہونے والا شہری نشے کا عادی تھا۔ اور ایک شہری سب اسٹیشن سے بجلی چوری کی کوشش میں کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ملیر، سپرہائی وے، سائٹ ایریا، گلشن معمار، بن قاسم، گلستان جوہر، لیبر اسکوائر، لانڈھی اور کورنگی سمیت دیگر علاقوں میں نشے کے عادی افراد بجلی چوری، کیبل چوری اور دیگر سامان چوری کرنے کے دوران کرنٹ لگنے سے ہلاک ہوئے ہیں، کورنگی کے علاقے میں سب اسٹیشن سے لاش برآمد ہوئی اور مائی کولاچی میں پیٹرولنگ کے دوران کرنٹ لگنے سے مرنے والے کی لاش ملی جبکہ ایک اور لاش نالے سے بھی ملی۔

عجیب منطق ہے نام نہاد مہذب دنیا میں ان تینوں اقسام کے لوگوں کی زندگی کی بھی وہی قیمت ہے جو ایک صحت مند اچھے شہری کی جان کی ہوتی ہے۔ لیکن مہذب دنیا کے طعنے دینے والے اپنے ہی شہریوں کو مارکر انہیں چور نشئی وغیرہ قرار دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ جن 33 افراد کی ہلاکت پر کے الیکٹرک پر نیپرا نے جرمانے کا حکم دیا تھا وہ بارش کے دوران کے الیکٹرک کے زیر انتظام علاقوں میں 23-2022ء میں جان بحق ہوئے تھے۔ کسی کی موٹر سائیکل گڑھے میں جاگری تھی اور کسی کی گاڑی خراب تھی تو وہ اتر کر دھکا لگانے کی کوشش میں کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوا، کئی لوگ پیدل چلنے والے صرف کھمبے کا سہارا لینے پر کرنٹ لگنے سے مرے۔ کے الیکٹرک نے رپورٹ تو جمع کرادی لیکن نہ نیپرا نے پوچھا کہ کرنٹ کھمبے اور سڑک پر کیوں آرہا تھا اور نہ کے الیکٹرک نے اس کی وضاحت کی، البتہ ایک اور لطیفہ یہ ہوا کہ نیپرا نے گزشتہ ماہ دیے گئے اس جواب کو مسترد کرکے کے الیکٹرک کو ایک کروڑ روپے جرمانے کا حکم دیا تھا ایک متاثرہ خاندان کو 35 لاکھ روپے جرمانہ دینے اور متاثرہ محمد اسلم کے وارث کو ملازمت دینے کا حکم دیا تھا، لطیفہ یہ ہے کہ نیپرا نے کارروائی کرتے ہوئے کہا تھا کہ کے الیکٹرک نیپرا قوانین پر عمل کرنے میں ناکام رہا ہے اور اسی کے الیکٹرک کو سات سالہ ٹیرف منظور کرکے لوگوں کو مارنے اور انہیں چور، نشئی اور ذہنی مریض قرار دینے کا لائسنس دیدیا، ایسا کرنے پر نیپرا اپنے لیے بھی ان تین میں سے ایک شناخت پسند کرلے ویسے وہ تو تینوں ہی پر پورا اترتی ہے۔

اہل کراچی کے واقفان حال بتاتے ہیں کہ جب شدید گرمیوں میں کراچی کے شہریوں کو دیکھو تو ان کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے جیسی کے الیکٹرک نے بیان کی ہے، شدید گرمی میں علانیہ اور غیر علانیہ لوڈ شیڈنگ کے بعد مہینے کے آخر میں بل آتا ہے تو جھٹکے سے ایک چنگا بھلا شخص بھی ذہنی مریض کی طرح ردعمل دیتا ہے کوئی ہنسنے لگتا ہے کہ بجلی تو دی نہیں بل بڑھا کر دیدیا کوئی صدمے سے رو پڑتا ہے کہ بل ادا کروں بیمار بیوی کا علاج کرواوں یا بچوں کی فیس دوں۔ اور کوئی غصے میں چیخنے لگتا ہے اور کے الیکٹرک اور اس کے سرپرستوں کو برا بھلا کہنے لگتا ہے۔ ایسے لوگ پاگل ہی سمجھے جائیں گے۔ گرمی سے ان کا حال الگ تباہ ہوتا ہے، ایسے آدمی کو اگر کرنٹ لگ جائے اور موت واقع ہو جائے تو جو بھی دیکھے یہی کہے گا جو کے الیکٹرک نے کہا تھا۔

اسی طرح کسی کے گھر بجلی نہیں آرہی وہ کھمبے کے نیچے کھڑا خرابی کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ اس پر تار آن گرا اور وہ کرنٹ لگنے سے جان بحق ہوگیا، اس کو کھمبے کی طرف گھور کر دیکھنے کی وجہ سے بجلی چور قرار دیدیا گیا، اور آخر وقت میں وہ کھمبے کو بجلی چوری ہی کی نیت سے گھور رہا ہوگا، جیسے پولیس والے استغاثہ میں لکھتے ہیں کہ ملزم ارادہ قتل سے گھر سے نکلا تھا۔ تو کے الیکٹرک نے بھی ارادہ چوری کا الزام دھردیا۔ اور نشئی تو ساٹھ فی صد شہری لگنے لگے ہیں، دن بھر اسکول، کالج، دفتر بازار کسی جگہ بجلی نہیں رات کو گھر پہنچیں چند گھنٹے سونا چاہیں تو لوڈ شیڈنگ، فالٹ، ریپئیر اور مینٹیننس وغیرہ کے نام پر بجلی غائب۔ آدھا پونا گھنٹہ نیند لے کر صبح پھر کام پر نکلنے والا اونگھتا ہوا آنکھیں چڑھی ہوئی اور لہرا کر چل رہا ہو تو تو اسے نشئی ہی سمجھا جائے گا، اور ہاں یہ سب چیزیں ایک جگہ جمع ہو جائیں تو کوئی بھی ماہر نفسیات ایسے لوگوں کو ذہنی مریض ہی قرار دے گا، اب بتائیں کے الیکٹرک کا جواب درست ہے کہ نہیں۔ کراچی والوں کی مت ماری گئی تھی کہ وہ چوبیس گھنٹوں میں دوگنے کی بجلی بندش برداشت نہیں کرتے تھے اور کے ای ایس سی کے خلاف مظاہرے کرنے لگے تھے، واضح رہے کہ کسی کی مت ماری جائے تو اسے ذہنی مریض ہی قرار دیا جاتا ہے، اور ذہنی مریض، نشہ کرے یا چوری اسے کیا پتا، تو جناب کے ای ایس سی کے خلاف مظاہروں کا نتیجہ یہ ہوا کہ ادارہ پرائیویٹائز ہوگیا بجلی لوگوں کے گھروں سے پرواز کرگئی اور ریٹس اس کے بعد سے مسلسل محو پرواز ہیں۔ اب کے الیکٹرک والے شہریوں کو چور کہیں نشئی یا ذہنی مریض کہیں وہ سب پر پورے اترتے ہیں۔ یہی کچھ پی آئی اے کے ساتھ ہوا، اب اس کو بھگتانے کی تیاری ہے۔