آئی ایم ایف معاہدہ اور ناکام معاشی مفروضے

214

پاکستان کی معیشت ایک بار پھر آئی ایم ایف کے شکنجے میں پھنسی ہوئی ہے، اور گزشتہ عرصے میں ہونے والے معاہدوں کے فوری نتائج کے طور پر وطن ِ عزیز کی خودمختاری اور معاشی آزادی کو سنگین خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ 7 ارب ڈالر کے حالیہ معاہدے کے تحت طے شدہ شرائط اور اقتصادی مفروضے ناکام ہوچکے ہیں، جس سے نہ صرف معیشت کا گلا گھونٹنے کا سلسلہ مزید بڑھ گیا ہے بلکہ یہ ملک کے دفاعی اور اسٹرٹیجک امور پر بھی دباؤ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ایف بی آر رواں مالی سال 2024-25ء کے ابتدائی چار ماہ، اور اکتوبر 2024ء کے لیے مقرر کردہ ٹیکس وصولی کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اکتوبر 2024ء میں 111 ارب روپے کی کمی کا سامنا رہا، جبکہ مجموعی طور پر جولائی تا اکتوبر 2024ء کے دوران ریونیو شارٹ فال 191 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اس سے قبل بھی پہلی سہ ماہی میں مقررہ ہدف پورا نہیں ہوسکا تھا، جس سے شارٹ فال میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ پہلی سہ ماہی میں ایف بی آر نے 90 ارب روپے کی کمی ظاہر کی تھی۔ یہ صورتِ حال معیشت پر منفی اثرات ڈال رہی ہے، جس کے نتیجے میں حکومتی ادارے ملکی پیداوار اور مالیاتی فریم ورک کے لیے استعمال شدہ مفروضوں کو دوبارہ دیکھنے پر مجبور ہوں گے۔ ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس وصولی کے اہداف میں مسلسل ناکامی اور برآمدات میں کمی نے معیشت کو مزید دبائو میں ڈال دیا ہے۔ اگر یہی صورتِ حال رہی تو حکومت کو آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق منی بجٹ کے ذریعے اضافی ریونیو اکٹھا کرنا ہوگا جس کا نتیجہ صرف اور صرف یہ نکلے گا کہ عوام کو مزید مالی بوجھ کا سامنا کرنا پڑے گا، مہنگائی بڑھے گی اور پہلے سے مشکلات کا شکار عوام کی تکالیف میں مزید اضافہ ہوگا، کیونکہ ماہرین کے خیال میں موجودہ صورتِ حال میں پاکستان کے پاس دو راستے ہیں: یا تو آئی ایم ایف کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کرے، یا پھر مزید ٹیکس لگاکر معیشت کو کمزور کرتا رہے جس کے امکانات زیادہ ہیں۔ حالیہ اعدادو شمار سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ ٹیکس وصولی میں کمی اور صوبائی حکومتوں کی ناکامی نے معاہدے کی شرائط کو عملی طور پر ناممکن بنادیا ہے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف معاشی نظام متاثر ہورہا ہے بلکہ اس سے معاشرتی اور انتظامی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا مقصد پاکستان کو محض معاشی لحاظ ہی سے محتاج نہیں کرنا بلکہ طویل مدتی منصوبوں کے تحت ملک کی دفاعی صلاحیتوں کو محدود کرنا بھی ہے۔ اُن کا اصل ہدف پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے، جسے وہ مختلف معاشی و سیاسی دباؤ کے ذریعے ختم کرنے کی کوششیں کرسکتے ہیں۔ حالیہ تاریخ میں بھی یہ دیکھنے کو ملا کہ مختلف ممالک پر آئی ایم ایف کے دباؤ نے اُن ممالک کی داخلی پالیسیوں کو متاثر کیا اور انہیں بیرونی قوتوں کے سامنے جھکنے پر مجبور ہونا پڑا۔ حالیہ معاہدے کے بعد روپے کی قدر میں مزید کمی، ٹیکس وصولی میں کمی، اور صوبائی بجٹ کے مسائل نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ شرائط حال کے ساتھ مستقبل میں بھی وطن ِ عزیز کی معیشت کے لیے خطرہ ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر کم کرنے کے مطالبے سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے، جو براہِ راست عوام کو متاثر کررہا ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ معاشی منصوبے ناکامی کی جانب بڑھ رہے ہیں، اور اسی بنیاد پر آنے والے دنوں میں پاکستان پر مزید دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔ دور تک اور اپنے مفادات کی عینک کے برعکس دیکھنے والے ماہرین نے پیش گوئی کی تھی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کیا گیا معاہدہ جلد یا بدیر ناکام ہو سکتا ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ جلد بازی میں ایک ایسا معاہدہ کیا جو حقیقتاً جلد ہی پٹری سے اتر جائے گا۔ موجودہ مالیاتی نظام کو آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت چلانا عوام اور معیشت کے لیے ایک مسلسل خطرہ بنا ہوا ہے۔ حکومت نے پاکستان کو پھنسا دیا ہے، وہ چاہے بھی تو عوام کے لیے کوئی فیصلے نہیں کرسکتی، اگر جلد ہی مالیاتی فریم ورک پر نظرثانی نہ کی گئی تو یہ بحران مزید سنگین شکل اختیار کر سکتا ہے۔ اس پس منظر میں ہمارے حکمرانوں کو اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ محض بیرونی قرضوں پر انحصار کرنے سے ملک نہیں چل سکتا۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی سیاسی اور معاشی قیادت متحد ہوکر خودمختاری پر سمجھوتا کیے بغیر متبادل معاشی حکمت عملیوں پر غور کرے، تاکہ پاکستان کو آئی ایم ایف کی غلامی سے آزاد کیا جاسکے اور عوام کو حقیقی معنوں میں معاشی تحفظ فراہم کیا جائے۔