گزشتہ دنوں پاکستان سمیت دنیا بھر میں صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کا دن منایا گیا۔ پاکستان میں صحافیوں کے لیے صورتِ حال اچھی نہیں ہے، یہ چیلنجوں سے بھری ہوئی ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے یہاں صحافت نہ ہونے کے برابر ہورہی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ کیونکہ صحافت ایک دور میں حق اور سچ کی آواز ہوتی تھی جو اب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی، لیکن جو کچھ رہ گیا ہے وہ بھی جبر کا سامنا کررہا ہے۔ بدقسمتی سے اس مقدس پیشے سے وابستہ افراد کو قتل، تشدد اور دھمکیوں جیسے سنگین خطرات کا سامنا رہتا ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ صحافیوں کے خلاف جرائم میں ملوث عناصر اکثر انصاف کے کٹہرے تک نہیں پہنچ پاتے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے یہ دن منانے کا مقصد عوام کو سچائی بتانے کی پاداش میں اپنی جان سے ہاتھ دھونے والے اور مختلف نوعیت کی تکالیف سہنے والے صحافیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنا ہے۔ پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کے قوانین موجود ہیں لیکن ان قوانین پر عمل درآمد کی صورتِ حال ناقص ہے۔ یہ بات نہایت تشویش ناک ہے کہ پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جہاں صحافیوں کے لیے کام کرنا انتہائی خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2000ء سے 2022ء کے دوران پاکستان میں 150 صحافی قتل ہوئے مگر صرف دو مجرموں کو سزا ہوئی۔ رواں سال فریڈم نیٹ ورک نے 2024ء کو صحافیوں کے لیے پاکستان کا مہلک ترین سال قرار دیا ہے، جس میں 6 صحافیوں کو قتل کیا گیا اور 11 پر قاتلانہ حملے کیے گئے۔ اسی طرح 2023ء سے 2024ء کے دوران ملک بھر میں صحافیوں کے خلاف 57 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سندھ میں 21، پنجاب میں 13، اسلام آباد میں 12، خیبر پختون خوا میں 7، اور بلوچستان میں 2 واقعات شامل ہیں۔ یہ صورتِ حال واضح طور پر اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ پاکستان میں صحافت اور صحافی مشکلات کا شکار ہیں۔ صحافت کے اس مقدس پیشے کو تحفظ فراہم کرنا صرف ایک قانونی ذمے داری نہیں بلکہ ایک معاشرتی اور اخلاقی فریضہ بھی ہے۔ پاکستان میں آزادیِ صحافت کے فروغ اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے حکومت کو انہیں جکڑنے اور پابند کرنے کے اقدامات سے گریز کرنا ہوگا۔ قانون ضرور بنائیں، مگر ایسے قوانین بنائے جائیں جو صحافت کو تحفظ فراہم کریں۔ صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کا دن منانا محض ایک علامت ہے، اصل تبدیلی تب آئے گی جب حکومت صحافیوں کے تحفظ کو اپنی اوّلین ترجیحات میں شامل کرے گی۔