جھوٹے مقدمات میں گرفتار اور ملازمت سے برطرف کرنا معمول بن گیا ، پی ایف یو جے

85

حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (ورکرز) کی صدر ڈاکٹر سعدیہ کمال، جنرل سیکرٹری شاہد علی، سینئر نائب صدر ناصر شیخ، نائب صدر توصیف احمد، پریس سیکرٹری عبدالرزاق چشتی اور دیگر نے گزشتہ روز ’’صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے عالمی دن ‘‘کے موقع پر کہا کہ پاکستان کے صحافیوں پر جرائم میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، صحافی یہاں مکمل طورپر غیر محفوظ ہو گئے ہیں، خاص طور پر سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں صحافتی اداروں اور صحافیوں کو مختلف طبقات، سرکاری مشینری اور حکومتی ذمہ داران کی جانب سے ہراساں کرنا معمول بن گیا ہے ، صحافیوں کو شہید کرنے والے قاتل قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کا قانون تو بنایا جاسکتا ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا جس کی وجہ سے صحافیوں کے خلاف جرائم کے اعدادوشمار میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے، ملک بھر کے صحافی، کیمرہ مین، فوٹو گرافر اور میڈیا سے وابستہ دیگر افراد ایک طرف تو ملازمت کے حوالے سے عدم تحفظ کا شکار ہیں تو دوسری جانب انہیں حقیقت پر مبنی رپورٹنگ کرنے کی پاداش میں ریاستی اداروں، حکومتی ذمہ داران، دہشت گرد تنظیموں، انتہا پسند اور فرقہ وارانہ تنظیموں کی طرف سے دھمکیاں دینا حد تو یہ کہ انہیں شہید تک کیا جا رہا ہے، اس کے علاوہ پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے صحافیوں کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کیے جانے اور انہیں ملازمت سے برطرف کرائے جانا تک معمول بن گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ شہید ارشد شریف سندھ کے صحافی جان محمد مہر، نصراللہ گاڈھی سمیت دیگر شہید صحافیوں کے قاتل آج تک آزاد ہیں، جبکہ پاکستان کے صحافیوں نے ملک میں جمہوریت اور آزادی رائے کے اظہار کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے صدر، وزیراعظم، وزیر اطلاعات اور دیگر اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا کہ شہید صحافیوں کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے، پاکستان میں اور خاص طورپر شورش زدہ علاقوں میں صحافت کرنے والے اور میڈیا سے وابستہ افراد کو تحفظ فراہم کیا جائے، صحافیوں کو مکمل مراعات اور سہولیات فراہم کی جائیں، اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنے والے وہ صحافی جنہیں کئی کئی ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئی ہیں انہیں فوری طورپر تنخواہیں ادا کی جائیں۔