لاہور: پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں فضائی آلودگی کی سطح خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے، جہاں ہفتے کی صبح فضائی معیار کی درجہ بندی 1067 ایئر کوالٹی انڈیکس ریکارڈ کی گئی ہے ۔
لاہور فضائی آلودگی کے حوالے سے دنیا کے خطرناک ترین شہروں کی فہرست میں سرفہرست ہے، جبکہ بھارت کے شہر کولکتہ کا AQI 253، دہلی کا 238، ممبئی کا 199 اور ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند کا ایئر کوالٹی انڈیکس 181 رہا ہے ۔
لاہور میں اسموگ شہریوں کے لیے سنگین صحت کے مسائل کا باعث بن رہی ہے، جس کے نتیجے میں شہریوں کو سانس لینے میں مشکلات، کھانسی اور آنکھوں میں جلن کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
151 سے 200 کے درمیان AQI کو غیر صحت بخش، 201 سے 300 تک کے AQI کو انتہائی مضر اور 300 سے اوپر کے AQI کو انتہائی خطرناک قرار دیا جاتا ہے۔
صبح 9:30 بجے لاہور کا AQI 1067 تک پہنچ گیا جو کہ سوئس فضائی معیار کی ریئل ٹائم فہرست کے مطابق دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سے بدترین تھا، حالانکہ صوبائی حکومت نے اسموگ سے نمٹنے کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں۔
سردیوں کے آغاز، ہوا کی رفتار اور سمت میں تبدیلی اور درجہ حرارت میں کمی کے ساتھ شہر میں فضائی آلودگی کی سطح بڑھ جاتی ہے۔
ایک سرکاری اہلکار کے ریکارڈ کے مطابق پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں فضائی آلودگی ہفتے کو عالمی ادارہ صحت (WHO) کی قابل قبول حد سے 80 گنا زیادہ ہوگئی ۔
صحت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والے مہلک PM2.5 ذرات کی سطح 1067 تک پہنچ گئی، جو بعد میں صبح 300 تک کم ہوگئی، جبکہ WHO کے مطابق 10 سے اوپر کی کوئی بھی سطح غیر صحت بخش سمجھی جاتی ہے۔
لاہور کے سینئر ماحولیاتی تحفظ کے اہلکار جہانگیر انور نے بتایا کہ ہم نے کبھی 1ہزار ایئر کوائلٹی انڈیکس کی سطح تک نہیں پہنچے تھے ۔
لاہور میں گزشتہ کئی دنوں سے اسموگ کا راج ہے، جو کم معیار کے ڈیزل دھوئیں، موسمی فصلوں کو جلانے سے پیدا ہونے والے دھوئیں اور سردی کے موسم کی دھند کا مرکب ہے۔
سرکاری دفاتر اور نجی کمپنیوں کے نصف عملے کو پیر سے گھر سے کام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تعمیراتی کام روک دیا گیا ہے اور کھلے چولہوں پر کھانا پکانے والے گلی کے کھوکھوں اور فوڈ اسٹالز کو رات 8 بجے بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
سردیوں میں اسموگ زیادہ بڑھ جاتی ہے کیونکہ ٹھنڈی اور کثیف ہوا شہر کی گاڑیوں اور فیکٹریوں میں استعمال ہونے والے کم معیار کے ایندھن سے نکلنے والے اخراج کو زمین کی سطح پر روک دیتی ہے۔