پی آئی اے کی نجکاری میں حکومت کی ناکامی

167

حکومت کو وطن عزیز کی ماضی کی مایہ ناز فضائی کمپنی، پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز کی نجکاری کی کوششوں میں ایک بار پھر ناکامی بلکہ مضحکہ خیز صورت حال کا سامنا ہے۔ وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کے شدید دبائو کے نتیجے میں پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے اور ایک سو باون ارب روپے سے زائد کے اثاثے رکھنے والی اس کمپنی کو نجی شعبہ کے سپرد کرنے کے لیے کم از کم 85 ارب تین کروڑ روپے قیمت متعین کی تھی مگر قومی اور بین الاقوامی سطح پر حکومتی پیشکش کا جواب نہایت سرد مہری سے دیا گیا اور صرف ایک کنسورشیم نے اس کی خریداری میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان کو پی آئی اے کی نجکاری کے لیے ستمبر کے آخر تک کا ہدف دیا تھا مگر بولی دہندگان کی عدم دلچسپی کے سبب نجکاری کے عمل کو 31 اکتوبر تک التوا میں رکھا گیا، یکم نومبر کو بولی کا مرحلہ آیا تو واحد بولی دہندہ کنسورشیم کی جانب سے صرف دس ارب روپے کی پیشکش کی گئی جس پر نظر ثانی اور بولی کی رقم بڑھانے کے لیے بولی دہندہ کو نصف گھنٹے کا وقت دیا گیا مگر بولی دہندہ نے اس کے بعد بھی بولی بڑھانے سے انکار کر دیا۔ نجکاری بورڈ نے اس بولی کو مسترد کرتے ہوئے معاملہ حتمی فیصلہ کے لیے وفاقی کابینہ کو ارسال کر دیا ہے۔ نجکاری کمیشن کا اجلاس نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت ہوا، جنہوں نے دوحہ سے بذریعہ ویڈیو لنک اجلاس کی صدارت کی، اجلاس میں نجکاری، فنانس و توانائی کے وزرا سمیت مختلف سیکرٹریز بھی شریک ہوئے، اجلاس میں بولی کے حوالے سے پرائس کنٹرول بورڈ کی جانب سے 60 فیصد حصص کی تقسیم کی توثیق کر دی گئی، بعد ازاں اسلام آباد میں نجکاری کے لیے بلیو ورلڈ سٹی کنسورشیم کی بولی کھولنے کے لیے تقریب ہوئی۔ پی آئی کی نجکاری کے واحد بولی دہندہ نے پی آئی اے کے 60 فیصد شیئرز کی صرف 10 ارب کی بولی لگائی، اس موقع پر واحد بولی دہندہ کی پیشکش پر قہقہے لگے۔ سٹیج پر موجود لوگ بھی مسکرا دیئے، جب کہ 152 ارب اثاثوں کی مالیت ایئر لائن کی بولی پر پی آئی اے انتظامیہ نے سر پکڑ لئے اور نجکاری کمیشن کے لوگ بھی پریشان ہو گئے۔ بولی دہندہ کو اپنی بولی پر نظر ثانی کے لیے 30 منٹ کا وقت دیا گیا، 30 منٹ بعد بولی دہندہ کنسورشیم نے بولی بڑھانے سے انکار کر دیا اور 10 ارب روپے کی بولی پر قائم رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ بولی دہندہ کنسورشیم کے نمائندہ اور چیئرمین بلیو ورلڈ چودھری سعد نذیر نے کہا کہ پی آئی اے کے لیے اعلان کردہ کم از کم قیمت بہت زیادہ ہے، پی آئی اے کے ذمہ 200 ارب روپے کے واجبات ہیں، 85 ارب روپے میں تو نئی ایئرلائن کھڑی ہو جائے گی۔ حکومت اگر پی آئی اے کی نجکاری نہیں کرتی تو خود چلائے۔ اس کے ساتھ ہی پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بولی کا عمل مکمل ہو گیا، ضابطے کے مطابق نجکاری کمیشن بولی کو وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کرے گا۔ خیال رہے کہ پی آئی اے کے کل 152 ارب روپے کے اثاثہ جات میں جہاز، سلاٹ، روٹس و دیگر شامل ہیں، پی آئی اے کی مجموعی رائلٹی 202 ارب روپے ہے جس میں سی اے اے اور پی ایس او شامل ہیں۔ پی آئی اے نے 16 سے 17 ارب روپے وصول کرنا ہے، پی آئی اے کے ملازمین کی تعداد 7 ہزار 100 ہے جب کہ 2400 سے زائد تعداد یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کی ہے۔ پی آئی اے میں 6 ڈائریکٹر ، 37 جنرل منیجر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں، 37 جنرل منیجرز میں سے اکثریت 2 عہدوں پر کام کر رہی ہے، پی آئی اے کے مجموعی جی ایم کی تعداد 45 ہے بولی جمع کرانے والی کمپنی بلیو ورلڈ کے ساتھ معاہدے کے اہم خدوخال بھی سامنے آ گئے ہیں۔ پی آئی اے کے ملازمین کو 18 ماہ تک ملازمت پر رکھا جائے گا اور 18 ماہ بعد تقریباً 70 فیصد تک ملازمین کو از سر نو جاب لیٹر آفر ہو ںگے، 30 فیصد ملازمین میں کچھ کو ریٹائرڈ اور باقی کو فارغ کر دیا جائے گا، ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کی پنشن کا بوجھ بھی حکومت کے ذمہ ہو گا، معاہدے کے تحت سرمایہ کار کمپنی 5 سالوں میں 30 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی اور پی آئی اے کے طیاروںکی تعداد 45 تک بڑھائی جائے گی جب کہ ایئر لائن اپنے تمام روٹس پر سروسز کو بحال کرے گی۔ اب بلیو ورلڈ سٹی کنسورشیم کے ساتھ بولی کو حتمی شکل دینے کے لیے گفت و شنید کا عمل بھی ہو سکتا ہے۔ واحد بولی دہندہ کے ساتھ بولی کامیاب کرنے کے لیے رولز میں ترامیم بھی کی گئی ہیں، پی آئی اے کی بولی کے لیے حتمی منظوری وفاقی کابینہ سے لی جائے گی۔ قبل ازیں پانچ بولی دہندگان نے 4 شرائط کے باعث بولی میں حصہ نہیں لیا، ان کے ساتھ ٹیکس معاملات پر بات چیت فائنل نہ ہو سکی، انہوں نے ایکویٹی نقصانات زیادہ ہونے کے باعث بولی میں حصہ نہیں لیا، وہ ملازمین کو فوری نوکری سے فارغ کرنا چاہتے تھے، بولی کے لیے طریقہ کار میں طے کیا گیا تھا کہ حصص کے لیے ملنے والی رقم کا صرف 15 فیصد حکومت کو ملنا تھا جب کہ 85 فیصد حکومتی حصص کو بہتر بنانے کے لیے پی آئی اے میں ہی لگایا جانا تھا، اس سے قبل 2015 ء میں پی آئی اے کی نجکاری کا عمل کیا گیا تھا جو ناکام ہو گیا تھا پی آئی اے نے گزشتہ 8 سال میں 500 ارب کا نقصان کیا، صرف گزشتہ مالی سال میں 80 ارب روپے کا نقصان ہوا نجکاری ڈویژن کے مطابق پی آئی اے کے ذمہ 825 ارب روپے واجب الادا ہیں، ایئرلائن کی نجکاری میں کسی بین الاقوامی کمپنی نے حصہ نہیں لیا۔

حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری سے ملکی خزانے کو خسارے اور قرض کی ادائیگی میں اربوں روپے سالانہ کی بچت ہو گی اس ضمن میں اولین سوال تو یہی ہے کہ اب تک جو ادارے نجی شعبہ کے سپرد کئے گئے ہیں ان کی نجکاری سے ملکی خزانے کو خسارے اور قرض کی ادائیگی کی مد میں سالانہ کس قدر بچت ہو رہی ہے، اس بچت کے مثبت اثرات ہماری معیشت پر کیوں مرتب نہیں ہو رہے اور پی ٹی سی ایل سمیت کئی اہم اور بڑے اداروں کی نجکاری کے باوجود ملکی معیشت کی حالت بہتر ہونے کی بجائے بد تر کیوں ہوتی جا رہی ہے۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ نجی شعبہ کے حوالے ہونے کے بعد یہی ادارے نقصان کی بجائے نفع میں کیوں چلنے لگتے ہیں کیا یہ ہمارے حکمران طبقہ کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت نہیں ہے بھٹو اور شریف خاندان کے ملکی اقتدار پر مسلط ہوے سے پہلے کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے کہ یہی پی آئی اے اور ریلوے اور ان جیسے دیگر قومی ادارے نہ صرف منافع بخش اور قومی خزانے کی تقویت کا باعث تھے بلکہ عالمی سطح پر ان کی کارکردگی کا کھلے بندوں اعتراف بھی کیا جاتا تھا مگر جب سے یہ دونوں خاندان ملکی اقتدار کے ایوانوں پر قابض ہوئے ہیں نہایت شاندار کارکردگی کے حامل یہ قومی ادارے مسلسل تباہی اور خسارے سے دو چار ہیں اور ملکی خزانے پر ان کا بوجھ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے جسے جواز بنا کر ان کی نجکاری کا راستہ کھولا جا رہا ہے مگر دوسری جانب اس عرصہ میں ان دونوں باری باری کے حکمران خاندانوں کے اثاثے اس قدر تیزی سے بڑھے ہیں کہ ان کی مثال تلاش کرنا مشکل ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بھٹو اور شریف خاندانوں کے اقتدار میں قومی ادارے تو تباہی و بربادی کے شکار ہوتے چلے جاتے ہیں جب کہ ان خاندانوں کے ذاتی اور خاندانی کاروبار اور اثاثے اسی عرصہ میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے ہیں اور ملک سے نکل عالمی سطح پر پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ یہ فرق واضح کرتا ہے کہ ہمارے حکمران ملک و قوم سے مخلص نہیں اور قومی اداروں کی زبوں حالی اور ناقابل برداشت خساروں کا حقیقی سبب حکمرانوں کی بدنیتی اور نا اہلی کے سوا کچھ نہیں…!!!