پاکستانی حکمرانوں کا تصور بھارت

337

مسلمان کے لیے ’’تصورِ دشمن‘‘ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اس لیے کہ مسلمان دشمنوں کے درمیان پیدا ہوتا ہے۔ انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے اور شیطان کو اللہ تعالیٰ نے خود انسان کا دشمن قرار دیا ہے۔ مسلمان کا دوسرا بڑا دشمن اس کا نفس امارہ ہے۔ نفس امارہ کی اہمیت یہ ہے کہ جب تک مسلمان نفس ِ امارہ کو قابو نہیں کرتا اس وقت تک اس کی روحانی ترقی ممکن ہی نہیں ہوتی۔ مسلمان نفس ِ امارہ پر قابو پاتا ہے تو وہ نفس ِ مطمئنہ تک پہنچتا ہے۔ مسلمان کا تیسرا بڑا دشمن اس کے ماحول کا جبر ہے۔ یہ جبر مسلمان کو کافر اور مشرک تک بنا سکتا ہے۔ چنانچہ ماحول کے جبر کے خلاف جہاد بھی مسلمان کے لیے اہم ہے۔ مسلمان کا ایک بڑا دشمن اس کے خارج میں موجود باطل سیاسی، تہذیبی اور عسکری طاقتیں ہیں۔ جیسے پاکستان کا سب سے بڑا دشمن بھارت ہے۔ بھارت کی دشمنی کا یہ عالم ہے کہ اس نے پاکستان کو نہ 1947ء میں تسلیم کیا۔ نہ 1971ء میں تسلیم کیا اور نہ وہ پاکستان کو 2024ء میں دل سے تسلیم کرتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے حکمرانوں کا تصور بھارت بالکل واضح اور عیاں ہونا چاہیے تھا۔ مگر سوائے قائداعظم اور شہید ملت لیاقت علی خان کے کسی بھی پاکستانی حکمران کا تصور بھارت ویسا نہیں ہے جیسا ہونا چاہیے۔

قائداعظم حقیقی معنوں میں ایک عظیم رہنما تھے۔ چنانچہ ان کا تصور دشمن یا تصور بھارت بھی بالکل واضح تھا۔ قائداعظم کو تخلیق پاکستان کے سلسلے میں دو دشمنوں کا سامنا تھا۔ یعنی انگریزوں کا اور ہندو اکثریت کا۔ مگر قائداعظم نہ انگریزوں سے مرعوب ہوئے نہ انہوں نے کانگریس کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ ایسا نہ ہوتا تو قائداعظم قیامت تک بھی پاکستان نہیں بنا سکتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد قائداعظم کا تصور بھارت اور عیاں ہوگیا۔ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے بھارت کو خبردار کیا کہ اگر تم نے اپنی مسلم اقلیت کے ساتھ ظلم کیا تو پاکستان خاموش نہیں رہے گا بلکہ وہ بھارت میں ’’مداخلت‘‘ کرے گا۔ ظاہر ہے کہ مداخلت ’’اخباری بیان‘‘ کے ذریعے نہیں ہوتی، مداخلت کا مطلب ’’فوجی مداخلت‘‘ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ قائداعظم نے یہ بات اس وقت کہی جب پاکستان کی سیاسی اور معاشی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ جب پاکستان کے پاس مناسب فوج تھی نہ ایٹم بم تھا۔ مگر قائداعظم کے پاس ’’قوتِ ایمانی‘‘ تھی، اسلامی جوش اور ولولہ تھا۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ قیام پاکستان کے بعد کراچی میں مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں ایک صاحب نے قائداعظم سے کہا کہ پاکستان بن گیا ہے لیکن اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے تمام اہم رہنما پاکستان آگئے ہیں۔ چنانچہ بھارت کے مسلمان قیادت سے محروم یا Leader Less ہوگئے ہیں۔ قائداعظم نے کہا کہ اگر یہ اجلاس ایک قرار داد منظور کرے تو میں پاکستان چھوڑ کر بھارت میں جا کر آباد ہوجائوں گا اور بھارتی مسلمانوں کی قیادت کروں گا۔ یہ بیان نہ صرف یہ کہ قائداعظم کی بے غرضی کا ایک ثبوت ہے بلکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انہیں ہندوستان کے ان مسلمانوں سے کیسی محبت تھی جن کی جدوجہد کے بغیر پاکستان بن ہی نہیں سکتا ہے۔ زیربحث موضوع کے حوالے سے یہ بات بھی ظاہر ہے کہ قائداعظم کو اس بات کا خوف بھی نہیں تھا کہ پاکستان بنانے کے بعد ان کی زندگی ہندوستان میں غیر محفوظ ہوگی۔ یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ ہندوستان نے کشمیر میں فوج داخل کی تو قائداعظم نے جنرل گریسی کو جوابی کارروائی کا حکم دیا۔ یہ اور بات کہ جنرل گریسی نے قائداعظم کا حکم ماننے سے انکار کردیا، لیکن اس حکم سے ثابت ہوگیا کہ بے سروسامانی کے عالم میں بھی قائداعظم کسی طرح بھی ہندوستان سے خوفزدہ نہیں تھے۔

لیاقت علی خان ہر اعتبار سے قائداعظم کا دایاں بازو تھے۔ لیاقت علی خان وزیراعظم تھے تو ہندوستان نے پاکستان کو آنکھیں دکھائیں اس کے جواب میں لیاقت علی خان نے ہندوستان کو مشہورِ زمانہ مُکّا دکھایا اور ہندوستان کو پاکستان کے خلاف جارحیت کی جرأت نہ ہوئی۔ قائداعظم کی طرح لیاقت علی خان کو بھی ہندوستان کے مسلمانوں کے حال اور مستقبل کی فکر تھی۔ چنانچہ انہوں نے نہرو کے ساتھ اقلیتوں کے تحفظ کا معاہدہ کیا جو ’’لیاقت نہرو پیکٹ‘‘ کہلایا۔ یہ قائداعظم اور لیاقت علی خان کی قیادت اور ان کے واضح تصور ہندوستان کا نتیجہ تھا کہ نہرو نے کشمیر میں فوج داخل کی مگر نہرو خود ہی مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گیا اور اس طرح اس نے تسلیم کرلیا کہ کشمیر ایک ایسا متنازع مسئلہ ہے جس کے سلسلے میں اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی نے آج تک نہرو کے اس اقدام پر انہیں معاف نہیں کیا ہے۔ لیکن قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد پاکستانی حکمران ہندوستان کے خوف میں مبتلا ہوگئے اور ان کا تصور ہندوستان بدل کر رہ گیا۔

جنرل ایوب خان پاکستان کے عوام کے لیے ’’ببرشیر‘‘ تھے مگر ہندوستان کے سامنے گیدڑ تھے۔ چنانچہ انہوں نے پاکستان کے دو اہم دریا ہندوستان کے حوالے کردیے۔ 1962ء میں چین بھارت جنگ ہوئی تو ہندوستان اپنی ساری فوج کو چین کی سرحد پر لے گیا۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے چین نے جنرل ایوب خان کو پیغام بھیجا کہ یہ ایک بہترین موقع ہے، آپ آگے بڑھیں اور بھارت سے اپنا کشمیر لے لیں۔ مگر امریکا کو اس بات کی خبر ہوگئی اور امریکیوں نے جنرل ایوب سے کہا آپ چین کے مشورے پر عمل نہ کریں، آپ چین بھارت کشمکش کو ختم ہونے دیں ہم بھارت پر دبائو ڈال کر مسئلہ کشمیر حل کرادیں گے۔ جنرل ایوب امریکا کے دبائو میں آگئے اور انہوں نے کشمیر حاصل کرنے کے سلسلے میں میسر آنے والے موقع کو گنوا دیا۔

جنرل ایوب کے بعد جنرل یحییٰ آگئے۔ انہوں نے مشرقی پاکستان میں ناانصافی کی انتہا کردی۔ 1970ء کے انتخاب میں عوامی لیگ پاکستان کی اکثریتی پارٹی بن کر اُبھری مگر جنرل یحییٰ نے عوامی لیگ کی اکثریت کو تسلیم کرنے کے بجائے مشرقی پاکستان کے عوام پر فوج چڑھادی۔ چنانچہ بھارت کو موقع ملا اور پاکستان کے 90 ہزار فوجیوں نے بزدلوں کی طرح بھارت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور مشرقی پاکستان ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو بڑے ’’بھارت مخالف‘‘ بنتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے ہم ایک ہزار سال تک بھارت کے خلاف جنگ کریں گے۔ ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔ بھٹو صاحب 90 ہزار جنگی قیدیوں کو چھڑانے کے لیے بھارت پہنچے تو اندرا گاندھی نے مذاکرات کی میز پر بھٹو سے کہا آپ تو بھارت کے ساتھ ہزار سال تک جنگ کرنے کا اعلان کرتے ہیں تو پھر ہم کیوں 90 ہزار جنگی قیدی آپ کے حوالے کریں۔ بھٹو نے اس کے جواب میں کہا کہ میڈم سیاست دان ایسی باتیں عوام کو خوش کرنے کے لیے کرتے ہی رہتے ہیں آپ میرے اس بیان کو اسی تناظر میں دیکھیں۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ بھٹو کی بھارت دشمنی بھی ’’جعلی‘‘ اور ’’نمائشی‘‘ تھی۔ جنرل ضیا الحق بھی بھارت سے خوفزدہ رہتے تھے۔ چنانچہ انہوںنے بھارت کے ساتھ خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر مذاکرات کے نو ادوار مکمل کیے اور ان ادوار کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکا۔ البتہ تاریخ کے اس مرحلے پر جب پاکستان ایٹم بم بنا چکا تھا اور بھارت پاکستان پر حملے کی تیاری کررہا تھا جنرل ضیا الحق نے ہندوستان کا ہنگامی دورہ کیا اور راجیو گاندھی کو دھمکی دی کہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو پاکستان بھارت پر ایٹمی حملہ کرے دے گا۔ راجیو گاندھی اس دھمکی سے ڈر گیا اور بھارت نے پاکستان پر حملے کا خیال ترک کردیا۔

جہاں تک میاں نواز شریف کا تعلق ہے تو وہ تقریباً بھارت کے ایجنٹ کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ مودی پہلی بار وزیراعظم بنے تو انہوں نے جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کے سربراہوں کو اپنی تقریب حلف برداری میں درباریوں کی طرح مدعو کیا اور میاں نواز شریف ایک درباری کی طرح مودی کے دربار میں حاضر ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف نے بلاشبہ کارگل میں بھارت کی گردن پر پائوں رکھ دیا تھا مگر بعدازاں جنرل پرویز روزانہ کی بنیاد پر بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگتے ہوئے دیکھے گئے۔ عمران خان کے دور میں پاک فضائیہ نے اپنی پیشہ ورنہ مہارت سے بھارت کے ایک طیارے کو مار گرایا اور اس کے پائلٹ ابھینندن کو گرفتار کرلیا۔ مگر عمران خان اور جنرل باجوہ ابھینندن کو ایک ماہ کیا ایک ہفتے بھی حراست میں نہ رکھ سکے اور بھارت کے آگے جھک گئے۔ جنرل باجوہ نے پاکستان کے بیس پچیس صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صاف کہا کہ ہم بھارت سے جنگ کے قابل نہیں کیوں کہ ہمارے پاس ٹینکوں میں پٹرول ڈلوانے کے بھی پیسے نہیں۔