یہ ممکن ہی نہیں تھا

123

پاکستان میں جس بھی سرکاری یا کسی نجی ادارے میں چلے جائیں، بازار ہو یا پارک، غرض کہیں بھی چلے جائیں، کسی بھی محفل میں جب گرما گرم سیاسی گفتگو ہورہی ہو تو ضرور بات کی تان یہاں ٹوٹتی ہے کہ یہ پاکستان ہے اور یہاں سب کچھ ممکن ہے۔ کچھ مشاہدہ بھی اور تجربہ بھی ایسا ہی ہے۔ کئی بار ایسا ہوچکا کہ جو جیل میں تھے سیدھے کابینہ شامل کرلیے گئے اور جو کابینہ میں تھے سیدھے جیل چلے گئے۔ ایوب خان ا حتساب کا قانون لائے تو اعلان ہوا جو میرے ساتھ ہیں وہ حکومت میں آجائیں گے جو میرے ساتھ نہیں ہیں ان سے ’’احتساب کا قانون‘‘ نمٹ لے گا، ستر سال کی تاریخ تو یہی ہے کہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ ایوب خان کے بعد ضیاء کا دور آیا اس میں بھی یہی کچھ ہوا، اس کے بعد مشرف آگئے پھر یہی کچھ دہرایا گیا، لیکن کچھ لوگوں نے سوچا کہ جیسا پاکستان میں ہوتا ہے تو یہی کچھ برطانیہ میں بھی ہوتا ہوگا، اسی سوچ کے پیش عمران خان کو آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے عہدے کے لیے امیدوار بنانے کا فیصلہ ہوا، عمران خان تو وہاں پڑھے ہوئے ہیں، انہیں تو اندازہ ہونا ہی چاہیے تھا کہ جہاں بھی قانون کی عمل داری ہوگی وہاں شخصی خواہش نہیں چل سکتی، چانسلر بننے کے لیے جہاں دوسری شرائط ہیں وہیں ایک شرط یہ بھی ہے کہ چانسلر بننے والا شخص سیاست نہیں کرے گا، اور سیاسی میدان کا گھوڑا چاہے رہا ہو مگر اس عہدے پر آنا چاہتا ہے تو اسے سیاست کو خیر باد کہنا ہوگا، لیکن اس کے باوجود ’’انصاف گروپ‘‘ مسلسل مہم جوئی پر تھا کہ عمران خان چانسلر بن کر رہیں گے، عمران خان چانسلر بن سکتے ہیں مگر شرط یہی ہے سیاست کو خیر باد کہہ دیں، پاکستان میں ان کے ہامی بھی اس مہم کا شکار ہوئے اور ہر کوئی اپنی اپنی بین بجارہا تھا، یہ کام ہونا تھا نہ ہوا، اب یہ گروہ کسی نئی مہم جوئی میں جت گیا ہے، جے یو آئی کی دوسرے درجے کی لیڈر شپ نے تسلی دی ہے کہ بشریٰ بی بی رہا ہوگئی ہیں تو اب عمران خان ایک نہ ایک دن جیل سے رہا ہو ہی جائیں گے، اب لوگ انتظار میں ہیں کہ کب عمران خان کی رہائی کے لیے روب کار جیل پہنچائی جاتی ہے۔

اپنی لیڈر شپ کے لیے مہم چلانا صرف تحریک انصاف کے کارکنوں کا ہی کام نہیں ہے یہ ہر سیاسی جماعت کے کارکن کی کہانی ہے، وہ اپنے لیڈر کو بس سب سے اوپر دیکھنے کا متمنی رہتا ہے، اس کے لیے خواب دیکھتا ہے اور مسلسل سوچتا رہتا ہے جہاں بھی محفل سجے وہاں بحث میں الجھا رہتا ہے، کسی کارکن کی دوڑ کونسلر تک کی ہوتی ہے، کسی کارکن کے لیڈر کی دوڑ ناظم بن جانے تک ہی ہوتی ہے اور کسی کارکن کی دوڑ اپنے لیڈر کے لیے میئر کے عہدے تک کی ہوتی ہے اور کسی کی دوڑ وزارت عظمیٰ تک ہوتی ہے کوئی کارکن کہتا ہے کہ اس کا لیڈر کسی اتحادی جماعت کے ساتھ مل کر وزیر ہی بن جائے، کوئی ایسے بھی ہیں جو دعا کرتے ہیں کہ ان کا لیڈر ایم این اے ہی بن جائے، مطلب یہ کہ جس سطح کا کارکن اسی سطح کی سوچ، لیکن یہ لیڈر شپ کا کام ہے کہ وہ اپنی منزل کہاں دیکھتی ہے، لیڈر شپ کا دوسرا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے کارکن کو ٹرک کی بتی کے پیچھے نہ لگائے، حقائق اپنے کارکن کے سامنے رکھے۔ تحریک انصاف کی لیڈر شپ اگر آکسفورڈ یونیورسٹی کی چانسلر شپ کا معاملہ مصنوعی طور پر نہ اٹھاتی تو یہ ہوسکتا تھا کہ چانسلر کا انتخاب پاکستانی کی سیاسی محفلوں کی بحث کا موضوع ہی نہ بنتا، لیڈر شپ تو ہلہ گلہ چاہتی ہے، وہ صاف صاف بات کرے گی تو کون کارکن اس کے لیے کا م کرے گا، لیکن اس کے باوجود کمال یہ ہوگا کہ جب لیڈر شپ اپنے کارکنوں کے ساتھ سچ بولے گی۔

اب دیکھیے پانچ اگست 2019 کا معاملہ ہے بھارت کو جو کرنا تھا کرلیا، ٹرمپ کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ بھارت نے جو کچھ بھی کیا، اس وقت کے پاکستان کے وزیر اعظم کو وقت سے پہلے بتاکر کیا، اس وقت کون وزیر اعظم تھا؟ ذرا ورق الٹیں تو پتا چلے گا کہ عمران خان ہی اس وقت ملک کے وزیر اعظم تھے، لیکن کون ہے جو قوم سے سچ بولے گا، کوئی نہیں ہے، یہ ملکی عدالت ہی تھی جہاں ایک کو سسلین مافیا اور گارڈ فادر کہا گیا، جو فیصلہ سنایا گیا تھا وہ دو روز پہلے راہداریوں میں ہر ایک کے ہاتھ میں تھا، یہ فیصلہ سیاسی مخالفین کے ہاتھوں میں تھا، لیکن دوسرے کو کہا گیا ’’گڈ تو سی یو‘‘ اور پھر شرمندگی مٹانے کے لیے ہر کسی کو یہی کہا گیا گڈ ٹو سی یو، تاہم کسی کو مرسڈیز بینز میں واپس نہیں بھجوایا گیا، کیونکہ جس کو کہنا تھا یہ گڈ ٹو سی یو صرف اسی کے لیے تھا، ہماری عدلیہ، ہماری مقننہ اور ہماری انتظامیہ، اب صرف یہی کہہ رہی ہیں کہ میرا اختیار میری مرضی، اس ملک میں سچی اور کھری سیاست کے لیے سیاسی عزائم اور خواہشات کو ترک کرنا ہوگا متضاد خیالات رکھنے کی وجہ ہم آج تک پریشان ہیں 50 سال پہلے آکسفورڈ کے کیبل کالج میں سیاست اور معاشیات کے طالب علم کے طور پر عمران خان نے کچھ سیکھا ہی ہوگا، کیا سیکھا؟ بھٹو صاحب نے بھی کچھ سیکھا ہی ہوگا، بے نظیر بھٹو صاحبہ نے بھی کچھ سیکھا ہی ہوگا؟ جو کچھ بھی سیکھا کیا ا س کا ایک فی صد بھی اس قوم کے لیے استعمال ہوا؟ نہیں ہوا، اس ملک میں سیاست صرف اور صرف ضد اور انا پرستی کی رہی ہے، دوسری جانب برطانیہ میں کیا ہورہا ہے، جہاں محض ایک تعلیمی اداے کے سربراہ کے عہدے کا انتخاب ہے، بحث یہ ہورہی ہے کہ یونیورسٹی کو دہائیوں پرانی تاریکی سے نکال کر ایک جامع ادارہ بنانے کے لیے مناسب امیدوار کو ووٹ دینا چاہیے پاکستان میں بے شمار غیر سیاسی لوگ، دانش ور اور میڈیا سے وابستہ افراد بھی عمران خان کو ایک ہیرو کے طور پر دیکھتے ہیں، مگر وہ اس پہلو کو نظرانداز کردیتے ہیں کہ اصل حقائق کیا ہیں، بس انہیں علم ہے کہ یہ پاکستان ہے اور یہاں ہر چیز ممکن ہے، اس لیے کوئی لیڈر بھی اپنے کارکنوں کے ساتھ سچ نہیں بولتا، بس انہیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھتا ہے۔