پاکستان کی جانب سے بارہا اعلان کیا جاتا رہا ہے کہ پاک چین دوستی ہمالہ سے بلند اور سمندروں سے گہری ہے لیکن ہر کچھ عرصے کے بعد چین کے تیور بدلے بدلے دکھائی دیتے ہیں، اس کی وجہ کچھ بھی ہو سکتی ہے لیکن اچانک تعلقات میں سرد مہری پیدا ہوجاتی ہے اور پھر پاکستانی حکمرانوں بلکہ فوجی سربراہ کو بھی چین یاترا کرنا پڑتی ہے، معاملات ٹھیک چلتے چلتے اچانک پاکستان میں چین کے سفیر جیانگ زائی ڈونگ نے کہ دیا کہ چینی شہریوں کی سیکورٹی سی پیک کو آگے بڑھانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اس کے بغیر یہ نہیں چل سکتا، 6 ماہ میں 2 مہلک حملے ناقابل قبول ہیں، حکومت پاکستان کو چین مخالف دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈائون کرنا ہوگا، جب تک محفوظ ماحول فراہم نہیں کیا جاتا یہ پروگرام آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اپنے شہریوں کی فکر کرنا تو ہر ملک کی ذمے داری ہے اور چینی باشندوں کے تحفظ کے معاملے پر ان کا سخت ردعمل بجا ہے، پاکستان کی جانب سے اس بیان پر ردعمل پاک چین تعلقات میں پیدا ہونے والے کھنچاؤ کا عکاس ہے، دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ چینی سفیر کا بیان حیران کن ہے اور یہ دونوں ملکوں کے مضبوط سفارتی تعلقات کا عکاس نہیں ہے، یہ بیان چینی سفیر کو مزید مشتعل کرسکتا ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ ایک ملک اپنے شہریوں کے تحفظ کی اہمیت بیان کررہا ہے اور وہ اپنے شہریوں کا تحفظ بھی چاہتا ہے تو اس پر حیران ہونے والی کیا بات ہے اور یہ مضبوط سفارتی تعلقات کا عکاس نہ ہونا کیسے ثابت ہوتا ہے۔ یہ بات پاکستانی عوام سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستانی دفتر خارجہ اور حکمرانوں کے ذہن میں اپنے شہریوں کا تحفظ کوئی اہم معاملہ ہی نہیں ہے اسی لیے عافیہ کے معاملے میں بھی بے حسی کے 20 سال گزاردیے گئے دس سال تو یہ سمجھانے میں لگے کہ عافیہ پاکستانی شہری ہے امریکی نہیں آج بھی ترجمان نے اسی بے اعتنائی سے کہا ہے کی امریکا میں سزا یافتہ قیدی صرف رحم کی اپیل کرسکتا ہے، ان کا اس سے کیا تعلق کہ مقدمہ سزا اور اغوا سب غیر قانونی تھا، چینی سفیر کے بیان میں زیادہ خطرناک وہ جملہ ہے جس کو پاکستانی حکمران کئی برس سے گیم چینجر قرار دے رہے ہیں، یہ تو وقت بتائے گا کہ گیم کس کے لیے چینج ہوتا ہے لیکن یہ کہنا کہ اس طرح یہ منصوبہ نہیں چل سکتا، یوں براہ راست منصوبے کے آگے نہ بڑھنے کے بارے میں بات کی گئی ہے، اب پاکستانی حکمران دیکھ لیں کہ گیم کس کی طرف چینج ہورہا ہے اور منصوبہ رکنے میں پاکستان کو کیا جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ چینی سفیر نے کہا انہیں امید ہے کہ پاکستان چینی شہریوں، اداروں اور منصوبوں کی سیکورٹی کو مضبوط بنائے گا، پاکستان کو ان لوگوں کو سخت سزا دینی چاہیے جو چینی شہریوں پر ہونے والے مہلک حملوں میں ملوث ہیں ہمارے صدر ژی جن پنگ اپنے شہریوں کی سلامتی کے بارے میں بہت فکرمند ہیں، وہ اپنے لوگوں کی زندگیوں کو باقی ہرچیز پر فوقیت دیتے ہیں۔ چینی سفیر نے یہ بھی کہا کہ ہم مل کران دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈائون کرسکتے ہیں۔ یہ ایک اور پالیسی شفٹ ہے، پاکستان اب تک امریکا کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کے خلاف جنگ کررہا تھا تو کیا دو ملکوں کے ساتھ مل کر یہ جنگ لڑی جائے گی، اب پاکستانی حکمرانوں کو سوچنا ہوگا اور نہایت سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ پاکستان کون سے کیمپ میں ہے اور کیا یہ دوسروں کی جنگ نہیں ہے، چینی سفیر نے منصوبے کو اپنا قرار دیا ہے لیکن یہ یکطرفہ نہیں ہے پاکستان سے گزرنے والا منصوبہ تو پاکستانی ہے اس کی سیکورٹی تو ویسے بھی ضروری ہے۔ اس مسئلے پر ڈپٹی وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستانی حکومت چینی شہریوں پرحملوں میں ملوث دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے اگلے ماہ صدر آصف زرداری اپنے دورہ چین کے دوران چینی ہم منصب ژی جن پنگ کو آگاہ کریں گے۔ یہ پاکستانی حکمرانون کے وضاحتی دورۂ چین کے سلسلے کا پہلا دورہ ہو گا، اس جنگ یا سرد جنگ کو سمجھنا ہوتو وزیر خارجہ کے بیان سے سمجھنا چاہیے وزیرخارجہ نے امریکا پر تنقید کی اور کہا کہ وہ چین کو عالمی اقتصادی طاقت بنتے نہیں دیکھ سکتا لیکن امریکا کی طرف سے چینی مصنوعات پر 200 فی صد ٹیرف عائد کرنے سمیت تمام حربوں کے باوجود چین دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت بننے کی منزل پا لے گا۔ اب یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگتی چاہیے کہ پاکستان میں چینی باشندوں کو کون نقصان پہنچارہا ہے۔ انہوں نے کہا چینی مصنوعات پر بھاری ٹیرف سیاست کے سوا کچھ نہیں۔ وزیر خارجہ بھولے نہ بنیں پاکستان میں ہونے والے واقعات کو چین امریکا کشیدگی اور امریکی آلہ کار بھارت کی سازشوں کے تناظر میں سمجھیں، یہ بہت خطرناک رجحان ہے دونوں ملکوں سے دوستی رکھنا اور بات ہے اور ایک کی طرف سے دوسرے کو یہ پیغام دینا اور بات ہے کہ چین دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی قوت بن کر رہے گا۔ یہ بات ہمیں ایک کیمپ میں ظاہر کررہی ہے، پھر نتائج تو آئیں گے۔